الحمد للہ.
صحیح تویہی ہے کہ احیاء اورآبادی کاری سے زمین کی ملکیت ہروقت حاصل ہوسکتی ہے ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل فرمان کا عموم ہے :
( جس نے غیر آباد زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے ) ۔
اس لیے کہ بعض علماء کرام مثلا احناف اس میں شرط رکھتے ہیں کہ جب حمکران اور مسلمانوں کے امام کی اجازت شامل ہو تو پھر ملکیت ہوگی ، جس سے اسے مقید کردیا گيا گيا لھذا مسلمانوں کے ولی الامر اورامام کی اجازت لازمی ہے ۔
اسے جاگیر کانام دیا جاتا ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دور میں عمل کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو اراضی عطا کی تا کہ وہ آباد کریں ۔
لھذا اس حالت میں ہم یہ کہیں گے کہ جس نے بھی 1382 ھجری سے قبل زمین آباد کی وہ اس کی ملکیت ہی ہوگی ، اور 1382ھجری کے بعدجس نے بھی امام اورحمکران کی اجازت سے کوئي زمین آباد کی وہ اس کی ملکیت ہوگی ۔
لھذا اگر ان قبائل نے بھی زمانہ قدیم میں اس تاریخ سے قبل زمین کوآباد کیا تووہ اس کی ملکیت کے زيادہ حقدار ہونگے ، لیکن اگر ان قبائل نے اسے آباد تونہیں کیا لیکن وہ اراضي ان کے بستی کے تابع اورقریب ہے جس سے ان کی مصلحت وابستہ ہے تواس بنا پر انہيں اس کی آباد کاری سے روکنے کا حق حاصل ہے ، تووہاں وہ سیروتفریح کریں اوراپنی آبادی میں وسعت کرنا چاہیں اوراگر وہاں کوئي اور آکر آباد ہونے کی کوشش کرے جس سے ان قبیلہ والوں کو ضرر اور نقصان ہونے کااندیشہ ہو تو وہ حکومت سے انہیں روکنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں ، چاہے وہ ان کے قبیلے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں ۔
لیکن اگر اس میں انہیں کوئي ضرر اورنقصان ہونے کااندیشہ نہ ہو اوران کے آبادی سے دور ہو جس کے کسی کو بھی کوئي ضرر اورنقصان نہ ہوتا ہو اورحکومت کی طرف سے آبادی کاری کی اجازت بھی مل چکی ہو اسے ملکیت میں لینا جائز ہے ، اوراہل قبیلہ کےلیے مخالفت کرنے کاکوئي حق نہيں رہتا ۔
لیکن اگر وہ وہاں خود ہی رہنا چاہیں اوراپنے قریب کسی اور قبیلے کے لوگوں کو بسنے نہ دینا چاہیں توپھر حکومت سے مطالبہ کرسکتے ہیں اس لیے کہ وہ اس اراضي کے زيادہ حقدار ہیں ، پھر اس میں حکموت کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔ .