جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مرد عورت کا ذمہ دار ہے؛ کا مطلب اور سبب

سوال

میرا سوال سورت النساء کی آیت نمبر: 34 کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہے، میں نے تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفسیر کی کتابیں پڑھی ہیں لیکن مجھے اس آیت کا تاریخی پس منظر نہیں ملا، تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس آیت کے تاریخی پس منظر کے متعلق بتلائیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کا سبب کیا تھا، اور کب نازل ہوئی اور کن کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فرمانِ باری تعالی ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً
 ترجمہ: مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے انہیں خواتین پر فضیلت دی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ لہذا نیک عورتیں وہ ہیں جو فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق (مال و آبرو) کی حفاظت کرنے والی ہوں۔ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو بستروں ان سے الگ کر لو، (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے ۔[النساء: 34]

تو اس آیت کریمہ میں مرد کی بیوی پر نگہبانی اور نگرانی ثابت ہے، نیز اگر بیوی نافرمانی کرنے لگے تو اس کے خلاف تادیبی کار روائی کا ذمہ دار بھی ہے۔

اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں مرد کو ملنے والے اسے مقام کی دو وجوہات ذکر کی ہیں، جن میں سے ایک تو اللہ تعالی کی طرف سے مرد پر نوازش ہے، کہ اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے، جبکہ دوسری چیز مرد اپنی کمائی سے حاصل کرتا ہے کہ مرد اپنی بیوی پر اپنا مال خرچ کرتا ہے۔

ان دونوں چیزوں کا تذکرہ آیت کے اس حصے میں ہے:
بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ
 ترجمہ: اس لیے کہ اللہ نے انہیں خواتین پر فضیلت دی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ [النساء: 34]

مرد کی اسی ذمہ داری کا تذکرہ ایک اور جگہ بھی اللہ تعالی نے تذکرہ کیا ہے کہ:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: نیز عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر درجہ حاصل ہے۔ اور اللہ تعالی صاحب اختیار بھی ہے اور حکمت والا بھی ۔[البقرۃ: 228]

ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (1/363) میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے انہیں جسمانی اور اخلاقی طور پر برتری عطا کی ہے، انہیں مقام اور فرمانروائی دی ہے، انہیں خرچ کرنے کی صلاحیت اور کام سر انجام دینے کی قوت دی ہے، اسی طرح دنیا اور آخرت میں بھی انہیں فضیلت دی ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے کہ:  الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ترجمہ: مرد عورتوں کے نگران ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انہیں خواتین پر فضیلت دی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ [النساء: 34] " ختم شد

اسی طرح (1/653) پر ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے فرمایا: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ یعنی مرد عورت کا نگران ہے، مطلب مرد عورت کا بڑا ہے اور ذمہ دار ہے، عورت پر اسے حکمران کا درجہ حاصل ہے، اگر اس میں کہیں ٹیڑھ پن آ جائے تو اسے سیدھا کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ پھر فرمایا: بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ یعنی کہ اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں سے افضل بنایا ہے، مرد میں عورت کی بہ نسبت خیر زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ نبوت صرف مردوں کو ملی ہے، اسی طرح ملکی سطح کی ذمہ داری بھی صرف مرد کو ملتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا) اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن ابو بکرہ عن ابیہ کی سند سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح قاضی کے منصب سمیت دیگر مناصب بھی صرف مردوں کے پاس ہوتے ہیں۔

پھر فرمایا: وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ یعنی: حق مہر، نان و نفقہ، اور دیگر اخراجات جو اللہ تعالی نے عورتوں کے لیے قرآن کریم میں یا حدیث مبارکہ میں مرد کے ذمے واجب کیے ہیں یہ سب مرد ہی برداشت کرتا ہے۔ اس لیے ایک تو مرد بذات خود عورت سے افضل ہے، اور مزید یہ کہ مرد عورت پر خرچ بھی کرتا ہے اس لیے مناسب تھا کہ مرد عورت پر حاکم اور نگران ہو، اللہ تعالی نے اسی لیے فرمایا: وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ یعنی مردوں کو عورتوں پر خصوصی درجہ حاصل ہے۔ علی بن ابو طلحہ رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کا مطلب ہے کہ مرد ان پر حکمران ہیں، یعنی عورت اپنے خاوند کے احکامات کی تعمیل کرے گی، مرد کی فرمانبرداری میں یہ بھی شامل ہو گا کہ مرد کے اہل و عیال کا اچھی طرح خیال رکھے اور اس کے مال کی بھی حفاظت کرے۔" ختم شد

علامہ بیضاوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (2/184) میں کہتے ہیں کہ:
"فرمانِ باری تعالی: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ یعنی مرد اپنی خواتین کا خیال اسی طرح کرتے ہیں جیسے حکمران اپنی رعایا کا کرتے ہیں۔
پھر اللہ تعالی نے اس کی دو وجوہات ذکر کیں ایک وہبی ہے اور دوسری کسبی ہے، چنانچہ فرمایا:  بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ یعنی اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں مکمل عقل عطا کی، اچھے انداز سے معاملات چلانے کی صلاحیت عطا فرمائی، عورتوں کے مقابلے میں جسمانی قوت زیادہ عطا کی ، عبادات کا موقع بھی انہیں زیادہ دیا؛ یہی وجہ ہے کہ نبوت، حکومت، ولایت، دینی شعائر کی امامت، دار القضا میں شہادت، جہاد اور جمعہ کی فرضیت ، عورت کے مقابلے میں دگنی وراثت، اور طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا۔
پھر فرمایا: وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ یعنی نکاح میں حق مہر مرد دیتا ہے، اور نفقہ بھی مرد ہی اٹھاتا ہے۔" مختصراً اقتباس مکمل ہوا

علامہ زحیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مرد عورت پر نگران ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کا سربراہ اور سرپرست ہے، عورت پر حاکم ہے، نیز اگر عورت میں ٹیڑھ پن آ جائے تو اس پر تادیبی کار روائی بھی کر سکتا ہے۔ عورت کی حفاظت اور مکمل خیال رکھنے کی ذمہ داری بھی مرد کے ذمے ہے، اسی طرح مرد پر جہاد فرض ہے عورت پر فرض نہیں ہے، ایسے ہی مرد کو وراثت میں سے دگنا ملتا ہے؛ کیونکہ مرد کو عورت پر خرچ کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔

عورت پر نگرانی ملنے کی دو وجوہات ہیں:

پہلی: جسمانی اور تخلیقی اسباب: یعنی مرد کو مضبوط جسم دیا گیا، مرد چیزوں کو سمجھنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، جذباتی طور پر مستحکم ہوتا ہے، اور بدنی طور پر ہر وقت ٹھیک ہوتا ہے۔ لہٰذا مرد عقل ، حکمت، عزم اور قوت میں عورتوں سے آگے ہیں۔ اسی لیے صرف مرد ہی رسول، نبی، حاکم اور قاضی ہو سکتے ہیں، اور صرف مرد ہی کچھ عبادات جیسے اذان، اقامت، خطبہ، جمعہ اور جہاد انجام دے سکتے ہیں۔ صرف مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اور اسے متعدد بیویوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ صرف مرد فوجداری مسائل اور حدود کے کیسز میں گواہی دے سکتے ہیں۔ نیز مردوں کو وراثت کا زیادہ حصہ ملتا ہے اور وہ بطور عصبہ بقیہ ساری وراثت حاصل کر سکتے ہیں۔

دوم: بیوی اور گھر کی دیگر خواتین پر خرچ کرنے کی ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے، اسی طرح حق مہر بھی مرد عورت کو دیتا ہے جو کہ عورت کی عزت افزائی ہے۔

اس کے لیے علاوہ جتنے بھی حقوق و واجبات ہیں ان میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں، تو یہ اسلام کی خوبی ہے، اسی لیے فرمایا: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ترجمہ: اور عورتوں کے لیے بھی وہی حقوق ہیں جو ان کے ذمے واجبات ہیں، تاہم مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔[ البقرۃ: 228] یعنی: گھر چلانے کے لیے ذمہ داری یکساں ہے، خاندانی معاملات پر نگرانی بھی یکساں ہے اور اسی طرح اہل خانہ کی رہنمائی کرنا اور نگرانی وغیرہ بھی یکساں طور پر واجب ہے۔۔۔" ختم شد
التفسیر المنیر:(5/ 54)

دوم:

اس آیت کے سببِ نزول کے متعلق کچھ ضعیف روایات آتی ہیں، جن میں سے ایک امام طبری رحمہ اللہ (8/ 291) نے حسن بصری سے نقل کی ہے کہ: "ایک شخص نے اپنی بیوی کو تھپڑ رسید کر دیا، تو عورت نبی مکرم کے پاس قصاص کا مطالبہ لے کر آئی تو اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ترجمہ: مرد عورتوں کے نگران ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انہیں خواتین پر فضیلت دی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ [النساء: 34] تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی کو بلایا، اور اس کے آنے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیات اسے پڑھ کر سنائیں اور کہا: (میرا ارادہ تو کچھ اور تھا، لیکن اللہ تعالی کا ارادہ میرے والا نہیں تھا۔)"

اس حدیث کی سند حسن بصری تک تو صحیح ہے، لیکن حسن بصری چونکہ تابعی ہیں اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کر رہے ہیں تو یہ مرسل روایت ہے، اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔

مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ آیت سعد بن الربیع کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور آپ انصاری سرداروں میں سے تھے، آپ کی اہلیہ حبیبہ بنت زید بن ابو ہریرہ تھیں، دونوں کا تعلق انصار سے تھا، آپ کی اہلیہ نے آپ کی نافرمانی کی تو انہوں نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (220192) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

اس آیت کا سیاق و سباق سے تعلق یہ ہے کہ: جب اللہ تعالی نے وراثت کے حصص بالکل واضح کر دئیے اور خواتین و حضرات دونوں کو ایک دوسرے کی امتیازی خوبیوں کی تمنا کرنے سے منع کیا تو پھر اللہ تعالی نے یہاں عورتوں پر مردوں کی فضیلت کا سبب ذکر کیا ہے۔
دیکھیں: زحیلی رحمہ اللہ کی "التفسیر المنیر"(5/ 45)

یہاں علامہ زحیلی رحمہ اللہ کا اشارہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی جانب ہے:
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
ترجمہ: اگر اللہ نے تم میں سے کسی ایک کو دوسرے پر کچھ فضیلت دے رکھی ہے تو اس کی ہوس نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا بھی حصہ ہے۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہا کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ [النساء: 32]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب