جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

حمل والی مطلقہ عورت کی عدت

سوال

ایک آدمی آپنی بیوی سے جھگڑا اورکہا جاؤ تجھے طلاق ہے توبیوی نے اسے گالی نکال دی جس کی بنا پرخاوند نے اس کے پیٹ میں لات ماری اوراسے دھکا دیا تووہ سیڑھیوں سے گڑپڑی اورپانچ ماہ کا حمل ساقط ہوگیا ، بعد میں نہ اپنے کیے پرنادم ہوا اوراپنے سسرال گيا تا کہ اسے واپس لاسکے ، لڑکی کے والد نے مجھ سے مشورہ طلب کیا تومیں نےاسے کہا کہ میں اس بارہ میں کسی عالم دین سے فتوی لیکر دونگا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اسقاط حمل کی وجہ سےاس کی عدت ہی ختم نہ ہوچکی ہو ، لھذا اس کا کیا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء کرام کا اجماع ہے کہ طلاق والی حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ، اس کی دلیل اللہ تعالی کامندرجہ ذیل فرمان ہے :

اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے الطلاق ( 4 ) ۔

اورعلماء کرام کا اس پربھی اجماع ہے کہ اگراس نے بچے کی تخلیق کے بعد وضع حمل کردیا تواس کی عدت ختم ہوجائے گی ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 11 / 229 ) ۔

اورحمل کے اسی ( 80 ) دن کے بعد بچے کی تخلیق یعنی شکل وصورت بننی شروع ہوجاتی ہے ، اورغالبا نوے ( 90 ) دن کی تکمیل میں تخلیق بھی مکمل ہوجاتی ہے ۔

لھذا اس بنا پر جس عورت نے حمل کے پانچویں ماہ میں حمل ساقط کردیا ، سب علماء کرام کے ہاں اس کی عدت ختم ہوجائے گی ، اوراس کی عدت ختم ہوجانے پر خاوند کے لیے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے ۔

لیکن خاوند کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تونیا نکاح کرسکتا ہے ، اوراس میں نکاح کی وہ سب شروط پائي جانی ضروری ہیں جونکاح میں پائي جاتی ہیں مثلا مہر ، گواہوں کی موجودگي ، عورت کی رضامندی ، اورولی کی موجودگي ۔

اوراس شخص پرجواسقاط حمل کا سبب بنا ہے دوچيزیں باقی رہتی ہیں :

اول :

اس کے ذمہ قتل خطاء کا کفارہ ہے ، جوایک مومن غلام آزاد کرنا ، اوراگروہ غلام نہ پا سکے تومسلسل دو ماہ کے روزے رکھے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورجوشخص کسی مسلمان کوبلاقصد مار ڈالے ، اس پرایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اورمقتول کے عزیزوں کودیت دینا ہے ، ہاں یہ اوربات ہےکہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں ۔۔۔

پھر اسی آیت میں آگے فرمایا :

پس جونہ پائے اس کے ذمے دومہینے کے لگاتارروزے ہیں ، اللہ تعالی سے بخشوانے کے لیے اوراللہ تعالی بخوبی جاننے والا اورحکمت والا ہے} النساء ( 92 )۔

دوم :

اس کےذمہ بچے کی دیت کی ادائيگي بھی ہے ( اوروہ ماں کی دیت کا دسواں حصہ ہے ، اور مسلمان عورت کی دیت پچاس اونٹ ہیں جواندازا ساٹھ ہزار سعودی ریال بنتے ہیں ) لھذا والد کوچاہیے کہ وہ بچے کے ورثاء کوچھ ہزار ریال یا پھر ان کی قیمت کی دوسری کرنسی کی ادائيگي کرے ، اوران پر تقیسم کی جائے گي کیونکہ بچہ فوت ہوچکا ہے ۔

لیکن یہ یاد رہے کہ والد اس دیت میں کسی چيز کا بھی وارث نہيں بن سکتا کیونکہ قاتل مقتول کا وارث نہيں بن سکتا ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( اوراگر مجرم بچے کوگرانے والا اس کا باپ یا اس کے ورثاء میں سے کوئي اورہو تواس کے ذمہ غرۃ ہے ، [ اورغرۃ غلام یا لونڈی کوکہا جاتا ہے جس کی قیمت پانچ اونٹ ہیں ، اورپر بیان ہوچکا ہے کہ وہ اندازا چھ ہزار سعودی ریال بنتے ہیں ] وہ اس میں سے کسی بھی چيز کا وارث نہيں ہوگا ، اورایک غلام آزاد کرے گا ، امام زھری اورامام شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے ) اھـ

دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 12 / 81 ) ۔

واللہ تعالی اعلم ، اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد