جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

کمپیوٹر پر بچوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے سافٹ وئیر فروخت کرنے کا حکم

سوال

-ہم ایسے سافٹ وئیر فروخت کرتے ہیں جن کی مدد سے بچوں کی بالغ عمری تک پہنچنے سے پہلے تک کمپیوٹر پر سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے، ان میں تمام تر اقدامات والدین کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں تا کہ وہ بچوں کو ضرر رساں اور اللہ تعالی کی نافرمانی پر مبنی مواد کے مشاہدے سے بچائیں ۔ تو کیا اس طرح کے سافٹ وئیرز کمپیوٹر یا بچے کے موبائل میں انسٹال کرنے سے پہلے بچے کو بتلانا ضروری ہے یا خفیہ طور پر بھی انسٹال کیا جا سکتا ہے؟ لیکن جب اس سافٹ وئیر کے متعلق بچے کو علم ہو تو اسے عارضی طور پر معطل کرنا بہت آسان ہے اس طرح اس سافٹ وئیر کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا، لیکن اگر خفیہ طور پر اسے انسٹال کیا جائے تو یہ بچوں کی جاسوسی کے زمرے میں آئے گا۔

 2-تو جب اس طرح سافٹ وئیرز ہم فروخت کرتے ہیں تو کیا صارف کے اسے اعلانیہ یا خفیہ طور پر استعمال کرنے کے متعلق ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے؟ واضح رہے کہ سافٹ وئیر میں اسے استعمال کرنے کی تمام تر شروط لکھی ہوئی ہوں گی۔ تاہم اسے کوئی غیر مسلم بھی خرید سکتا ہے جو اسے استعمال کرنے کی شرائط پر توجہ ہی نہیں کرے گا، اور اسے کسی کے بھی خلاف خفیہ طور پر استعمال کر سکتا ہے، تو کیا ہم مسلمان اسے فروخت کنندہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم کے غلط استعمال کے ذمہ ہوں گے؟ اس صورت میں ہمیں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ اور اس کیفیت میں ہم حرام سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بچوں ، یا بڑوں یا بیوی کی نگرانی کے لیے کسی بھی ایسے سافٹ وئیر کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے جو ان کی نگرانی ان کے علم کے بغیر کرے؛ کیونکہ یہ ممنوعہ جاسوسی میں آتا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ
 ترجمہ: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، یقیناً کچھ گمان گناہ کا کام ہیں، نہ ہی جاسوسی کرو، نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تم تو اسے ناپسند کرتے ہو، اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ تعالی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الحجرات: 12]

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ؛ کیونکہ بد گمانی جھوٹی ترین بات ہے، کسی کی برائیوں کی ٹوہ میں نہ لگو، نہ ہی کسی کی خفیہ باتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، اور بھائی بھائی بن کر رہو، کوئی بھی شخص اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام نہ بھیجے یہاں تک کہ وہ اس سے نکاح کر لے یا چھوڑ دے) اس حدیث کو امام بخاری: (5144) اور مسلم : (2563) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے تو مسلمان ہو چکے ہو لیکن ایمان ان کے دلوں تک نہیں پہنچا! مسلمانوں کو اذیت مت دو، نہ ہی انہیں عار دلاؤ، ان کے عیب مت ٹٹولو؛ کیونکہ جو بھی اپنے مسلمان بھائی کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالی اس کے عیب تلاش کرتا ہے، اور جس کے عیب اللہ تعالی تلاش کرنے لگ جائے تو اسے رسوا کر کے رکھ دیتا ہے چاہے وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو) ترمذی: (2032) ابو داود: (4880)

تو یہاں طریقہ کار تو یہی ہے کہ والد اپنے بچوں کو بتلا دے کہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے کمپیوٹر پر پروگرام انسٹال کر دیا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ انہیں پروگرام دکھائے بھی، اسے خفیہ رکھے، یا سافٹ وئیر ہی ایسا منتخب کرے کہ بچے اسے معطل ہی نہ کر سکیں۔

تاہم ایسا سافٹ وئیر استعمال کرنا جائز ہے جو غیر اخلاقی ویب سائٹ وغیرہ کو بلاک کر دے، یہ چیز جاسوسی میں نہیں آتی، بلکہ یہ کسی بھی ضرر رساں اور نقصان دہ چیز سے روکنے کے زمرے میں آئے گا اور یہ والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدَادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچاؤ؛ اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، اس پر انتہائی سخت اور سنگ دل فرشتے ہیں جو اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتے، بلکہ جو بھی انہیں حکم دیا جاتا ہے اسے کر گزرتے ہیں۔[التحریم: 06]

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس حکمران لوگوں کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ رہو! کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (7138) اور مسلم : (1829) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کسی بھی شخص کو اللہ تعالی رعایا کی حکمرانی عطا کرے اور اسے موت اس حالت میں آئے کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے)

دوم:

اس پروگرام سمیت دیگر کسی بھی پروگرام کی فروختگی کہ جسے حلال یا حرام دونوں طریقوں سے استعمال کیا جانا ممکن ہو تو اس میں بنیادی طور پر اصول ہے کہ اس کی تجارت کرنا جائز ہے، تاہم اگر پتہ چل جائے یا غالب گمان یہ ہو کہ خریدار اسے حرام طریقے سے ہی استعمال کرے گا تو پھر اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن اگر خریدار کی صورت حال معلوم نہ ہو، یا تردد پایا جائے کہ کیا وہ اسے حلال طریقے سے استعمال کرے گا یا حرام تو پھر بھی اسے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر خریدار اسے حرام طریقے سے استعمال کرے تو پھر اس کا گناہ صرف اسی پر ہو گا۔

جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (13/109)میں ہے:
"ہر وہ چیز جسے یقینی طور پر حرام طریقے سے استعمال کیا جائے، یا غالب گمان یہی ہو وہ حرام طریقے سے استعمال ہو گا تو پھر اس چیز کو بنانا، درآمد کرنا، فروخت کرنا، اور مسلمانوں میں اس کی ترویج کرنا حرام ہے۔" ختم شد

مزید کے لیے سوال نمبر: (39744 ) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب