جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

فرمانِ باری تعالی: { إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ} کی تفسیر

سوال

اللہ تعالی کے فرمان: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کی کیا تفسیر ہے؟

جواب کا خلاصہ

اسلام کا عمومی معنی ہے کہ : اللہ تعالی کے سامنے جھک جانا، سب کچھ اسی کے سپرد کر دینا اور اسی کی اطاعت بجا لاتے ہوئے اسی وحدہ لا شریک کی عبادت کرنا۔ جبکہ خاص معنی ہے کہ: اسلام سے مراد وہ دین ہے جو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے ہیں اور اللہ تعالی کسی سے بھی اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ترجمہ: یقیناً دین اللہ تعالی کے ہاں صرف اسلام ہے۔[آل عمران: 19]

اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالی کے ہاں اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں ہے، اور اسلام کا مطلب یہ ہے کہ: انسان اللہ تعالی کا مطیع ہو، اپنا سب کچھ اسی کے سپرد کر دے ، اللہ تعالی کے سامنے ہی جھکے، صرف اسی کی عبادت کرے، اللہ تعالی پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ اللہ کی کتابوں پر بھی ایمان لائے، اللہ تعالی نے ہر رسول کو شریعت اور منہج سے نوازا تھا، تا آں کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے، آپ کو اللہ تعالی نے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا، چنانچہ ان کے بعد اللہ تعالی کسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا۔

چنانچہ سابقہ انبیائے کرام کے تمام پیروکار اسلام کے عمومی معنی کے اعتبار سے مسلمان تھے اور وہ اسی وجہ سے جنت میں بھی جائیں گے، لیکن اگر ان میں سے کسی کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی اطلاع ملی تو ان سے صرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہی قبول کی جائے گی۔

اس آیت کی تفسیر میں سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسلام: لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا، اور اللہ تعالی کی طرف سے دین کی صورت میں جو کچھ نازل ہوا ہے اس کا اقرار کرنا۔ یہ اللہ تعالی کا ایسا دین ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے، اسی دین کو دے کر انبیائے کرام مبعوث فرمائے، اپنے اولیائے کرام کی اسی کے لیے رہنمائی فرمائی، اللہ تعالی اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا اور بدلہ بھی صرف اسی دین کا دے گا۔" ختم شد

اسی طرح ابو العالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسلام: صرف اللہ کے لیے اخلاص اور وحدہ لا شریک کی بندگی کا نام ہے۔" ختم شد
"تفسیر طبری" (6/ 275)

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ میں اللہ تعالی کی طرف سے یہ بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی کسی سے بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا، اور اسلام یہ ہے کہ: جس وقت بھی اللہ تعالی نے جو بھی رسول بھیجے ہیں ان کی اتباع کی جائے، پھر جب خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے سلسلہ نبوت مکمل ہوا تو اللہ تعالی نے اپنی طرف آنے والے تمام راستے بند کر دئیے صرف ایک ہی راستہ کھلا رکھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد ایسا دین اور شریعت لے کر جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نہیں ہے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
 ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ [آل عمران: 85]
اور اس آیت مبارکہ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ میں بھی یہی بتلایا کہ اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول دین صرف اسلام ہے۔" ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (2/ 25)

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام زجاج ؒ کہتے ہیں: دین: ان تمام امور کا نام ہے جو اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر بطور بندگی لازم کیے اور انہیں ان پر کار بند رہنے کا حکم دیا ہے، انہی امور کے عوض اللہ تعالی لوگوں کو بدلہ بھی دے گا۔
ہمارے استاد محترم علی بن عبید اللہ کہتے تھے: دین: ہر اس کام کا نام ہے جو انسان اللہ تعالی کے لیے اپنے آپ پر لازم قرار دیتا ہے۔
ابن قتیبہ ؒ کہتے ہیں: اسلام کا مطلب سلامتی میں داخل ہونا ہے۔ یعنی: انسان فرماں برداری اور پیروی کے ذریعے سلامتی پاتا ہے، یہی مفہوم عربی میں لفظ "استسلام" کا ہے، مثلاً عربی میں کہا جاتا ہے: {سَلِمَ وَاسْتَسْلَمَ، وَأَسْلَمَ فُلَانٌ لِأَمْرِكَ} سب کا مطلب یہ ہے کہ: فلاں شخص آپ کے حکم کا تابع فرماں ہو کر سلامتی پا گیا۔" ختم شد
"زاد المسیر" (1/ 267)

علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے بتلایا کہ:  إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ یعنی: ایسا دین جس کے علاوہ اللہ تعالی کے ہاں کوئی دین نہیں ہے، اور اس کے علاوہ کوئی دین مقبول بھی نہیں ہے تو وہ الْإِسْلَامُ ہے، یعنی: اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کی زبانی جو شریعت انسانوں کو دی ہے اس پر ظاہری اور باطنی ہر طرح سے صرف ایک اللہ کی اطاعت کے لیے عمل پیرا ہو جائیں، اللہ تعالی نے ایک اور جگہ فرمایا: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ [آل عمران: 85] لہذا اگر کوئی شخص دین اسلام سے ہٹ کر کوئی دین اپنائے تو اس نے حقیقت میں اللہ کا دین اپنایا ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اس شخص نے وہ راستہ ہی اختیار نہیں کیا جو اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کی زبانی بتلایا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "تفسیر سعدی" (ص: 964)

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسلام کے عام معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہے کہ: جب سے اللہ تعالی نے رسولوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر قیامت قائم ہونے تک اس انداز سے اللہ تعالی کی بندگی کی جائے جیسے اللہ تعالی نے شریعت میں بیان کی ہے، اللہ تعالی نے اس بات کا تذکرہ متعدد آیات میں فرمایا ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ تمام کی تمام شریعتیں بھی اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالی کی اطاعت گزار ہی تھیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! تو ہم دونوں کو اسلام والا بنا، اور ہماری اولاد میں سے بھی تیری فرماں بردار امت بنا۔ [البقرۃ: 128]
جبکہ اسلام کا خاص معنی مراد ہو تو اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو کچھ دے کر بھیجا گیا ہے وہی دین اسلام ہے؛ کیونکہ جو شریعت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے کر ارسال کیا گیا ہے اس نے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے، چنانچہ اب جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرے صرف وہی مسلمان ہو گا ، اور جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے، لہذا دیگر انبیائے کرام کے پیروکار ان کے زمانے میں مسلمان کہلائیں گے، اسی لیے یہودی سیدنا موسی علیہ السلام کے زمانے میں مسلمان تھے، عیسائی سیدنا عیسی علیہ السلام کے زمانے میں مسلمان تھے ، لیکن جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہو گئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ لائے بلکہ کفر کیا تو اب وہ مسلمان نہیں ہیں۔

دین اسلام ہی وہی دین ہے جو اللہ تعالی کے ہاں مقبول ہے، اور انسان کو فائدہ دے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ترجمہ: یقیناً دین اللہ تعالی کے ہاں صرف اسلام ہے۔[آل عمران: 19]
اسی طرح اللہ تعالی یہ بھی فرمان ہے: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
 ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ [آل عمران: 85] " ختم شد
"شرح ثلاثة الأصول" (ص: 20)

الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام انبیائے کرام کا دین ایک ہی ہے، اگرچہ ان کی شریعت الگ الگ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ
 ترجمہ: اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں فرقہ واریت میں نہ پڑ جاؤ۔ [الشوری: 13]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ
ترجمہ: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو، یقیناً میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں، اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس میرے لیے ہی تقوی اپناؤ۔[المؤمنون: 51 - 52]

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہم انبیائے کرام کی جماعت ہیں ہمارا دین ایک ہے، اور انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں۔)

اور انبیائے کرام کا دین ؛ دین اسلام ہی ہے؛ کیونکہ اس کے علاوہ اللہ تعالی کسی دین کو قبول نہیں فرمائے گا۔ اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دیا جائے، اسی کی اطاعت کی جائے، اور شرک اور مشرکوں سے دور رہیں:
اسی لیے اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ یعنی: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں شامل ہو جاؤں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ یعنی: جب ابراہیم سے اس کے رب نے کہا: مسلمان ہو جاؤ، تو انہوں نے کہا: میں رب العالمین کے لیے مسلمان ہو گیا۔

سیدنا موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ یعنی: موسی علیہ السلام نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ تعالی پر مکمل اعتماد کرتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو۔

سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ یعنی: جب میں نے حواریوں کی جانب وحی کی کہ: مجھ پر اور میرے رسولوں پر مکمل ایمان رکھو، تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، اور گواہ ہو جا کہ ہم سب یقیناً مسلمان ہیں۔

اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب تورات اور سابقہ انبیائے کرام کے بارے میں فرمایا: يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا یعنی: مسلمان نبی تورات کے ذریعے یہودیوں کے فیصلے کرتے تھے۔

ملکہ سبا کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ یعنی: میرے پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم ڈھایا، اور میں سلیمان کے ہمراہ اللہ رب العالمین کے لیے مسلمان ہو گئی ہوں۔

تو ان سب آیات سے معلوم ہوا کہ تمام انبیائے کرام کا دین اسلام ہی تھا، اور اسلام یہ ہے کہ انسان صرف اللہ تعالی کا فرماں برادر ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی اور غیر اللہ دونوں کا فرماں بردار ہوا تو وہ مشرک ہے، اور اگر کوئی اللہ تعالی کا سرے سے فرماں بردار نہ ہوا تو وہ متکبر ہے، اب چاہے کوئی مشرک ہو یا اللہ کی بندگی سے تکبر کرنے والا ہو دونوں ہی کافر ہیں۔

سب کچھ اللہ کے سپرد کرنے میں صرف اللہ تعالی کی بندگی اور صرف اسی کی اطاعت بھی شامل ہے، یعنی: کوئی بھی وقت ہو اس وقت کے متعلق اللہ تعالی نے جو حکم دیا ہے اس حکم کی تعمیل کی جائے، چنانچہ جس طرح ابتدائے اسلام میں بیت المقدس کی جانب قبلہ رخ ہونے کا حکم تھا، پھر بعد میں کعبہ شریف کی جانب رخ کرنے کا حکم دیا گیا، تو دونوں کاموں کا جس وقت حکم دیا گیا دونوں ہی اپنے اپنے وقت میں عین اسلام تھے، تو اس سے معلوم ہوا کہ دین اصل میں اطاعت گزاری کا نام ہے، اور دونوں کام ہی اللہ تعالی کی عبادت قرار پائیں گے، اگرچہ ان کاموں کی کچھ صورت مختلف ہے کہ ایک میں بیت المقدس کی جانب نمازی کا رخ ہے تو دوسرے عمل میں کعبہ کی جانب۔

اسی طرح تمام رسولوں کا معاملہ ہے کہ سب انبیائے کرام کا دین ایک ہی ہے اگرچہ ان کی شریعت اور منہج الگ الگ ہیں، عبادت کا طریقہ مختلف ہے، تو ان کے الگ ہونے سے دین الگ الگ نہیں ہو جاتا، جیسے ایک ہی رسول کی شریعت میں عمل کی شکل بدلنے سے شریعت نہیں بدلتی جیسے کہ ہم نے شریعتِ محمدی میں پہلے بیت المقدس اور پھر کعبہ شریف کی جانب رخ کرنے کی مثال پیش کی ہے۔

تو تمام انبیائے کرام کا دین ایک ہی ہے چاہے ان کے شرعی امور بجا لانے کا طریقہ کار الگ الگ ہو؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کسی حکمت کے تحت اللہ تعالی کی جانب سے ایک عرصے کے لیے کوئی کام کرنے کا حکم دیا جائے، پھر وہ عرصہ ختم ہونے پر کچھ اور کام کرنے کا حکم دے دیا جائے تو اس سے پہلا کام منسوخ ہو جائے گا۔ منسوخ ہونے سے پہلے اس پر عمل اللہ تعالی کی اطاعت ہے، اور منسوخ ہونے کے بعد ناسخ پر عمل اللہ تعالی کی اطاعت ہے، لہذا اگر کوئی شخص منسوخ دین پر عمل کرتا رہے اور ناسخ دین پر عمل نہ کرے تو وہ دین اسلام پر نہیں ہے! نہ ہی وہ کسی بھی نبی کا پیروکار ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے یہود و نصاری کو کافر قرار دیا ہے؛ کیونکہ انہوں نے منسوخ دین کو اپنایا ہو اہے۔

اللہ تعالی نے ہر امت کی حالت اور اس کی وقتی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے شرعی احکامات صادر فرمائے، ان احکامات میں اس امت کی بہتری کی ضمانت بھی ہوتی تھی ، اور امت کے مفادات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ، پھر اللہ تعالی نے ان احکامات میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ فرما دیا ؛ کیونکہ ان کی چنداں ضرورت نہیں رہی تھی، تا آں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی مکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو ساری دھرتی کے تمام لوگوں کے لیے قیامت تک نبی بنا کر بھیجا، اللہ تعالی نے آپ کو ایسی شریعت عنایت فرمائی جو کہ ہر وقت اور ہر جگہ کے لیے موزوں ہے، اس میں کوئی تبدیلی یا منسوخی نہیں ہے؛ چنانچہ پوری دھرتی کے تمام لوگوں کے لیے صرف ایک ہی اختیار ہے کہ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائیں؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً ترجمہ: کہہ دیجیے! اے لوگو! یقیناً میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں۔ [الاعراف: 158] " ختم شد
"الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد" (ص: 194)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (172775 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب