اگر گاہک ایسے آلات خریدنا چاہتا ہے جو اس وقت آپ کی ملکیت میں نہیں، تو اس کے ساتھ درج ذیل میں سے کسی ایک طریقے پر معاملہ کیا جا سکتا ہے:
1۔ اجرت پر وکالت۔
2۔ مرابحہ کے ذریعے فروخت۔
3۔ عقدِ سلم کے ذریعے۔
ان تینوں طریقوں کی تفصیل مفصل جواب میں بیان کی گئی ہے۔
ملکیت میں غیر موجود چیز کو آگے بیچنے کے طریقے: مرابحہ، سلم یا اجرت پر وکالت
سوال: 292328
ہماری ایک ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔ ہمارے پاس گاہک (خواہ وہ کوئی کمپنی ہو یا فرد) آتا ہے اور ہم سے کوئی خاص خدمت یا سہولت وغیرہ طلب کرتا ہے، مثلاً کسی دفتر میں مواصلاتی نظام قائم کرنا، الیکٹرانک آرکائیونگ تیار کرنا، یا ملازمین کے درمیان ڈیٹا ٹرانسفر کا انتظام کرنا۔ اس مقصد کے لیے ہم گاہک کو ایک مکمل ڈیزائن اور حل فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ مطلوبہ سہولت حاصل کر سکے۔
جب ہم گاہک کو حل بتاتے ہیں تو اس میں مختلف آلات اور سافٹ ویئر شامل ہوتے ہیں۔ ہم انہیں ایک مکمل پیکج کی صورت میں فراہم کرنے پر ایک متعین قیمت بتاتے ہیں، جس میں ہمارے کام کی اجرت بھی شامل ہوتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آلات (جو کہ اس سوال کا بنیادی موضوع ہیں) گاہک ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم خود بازار سے ڈھونڈ کر لائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم یا تو انہیں خود پیش کش کرتے ہیں یا ان کی درخواست پر پیش کش تیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے تعلقات استعمال کرتے ہیں اور اندرون و بیرون ملک کے تاجروں اور کمپنیوں سے رابطہ کرتے ہیں، ان سے عام مارکیٹ سے بہتر قیمت پر آلات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اس پر اپنا منافع شامل کر کے گاہک کو پیش کرتے ہیں۔ نتیجتاً، ہماری پیش کردہ قیمت عموماً اس سے بہتر ہوتی ہے جو وہ براہِ راست خود تلاش کرتے، الا ماشاء اللہ۔
ہم ان تاجروں سے جو ہمیں ریٹ دیتے ہیں یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ ہمارے لیے مال روک کر رکھیں، بلکہ ہم گاہک کو ان کی ضرورت کی تفصیلات بتا کر ساتھ قیمت اور اپنا اضافہ شدہ منافع ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس میں آلات کی تعداد اور اقسام کا عمومی یا کبھی تفصیلی بیان بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم انسٹالیشن اور پروگرامنگ کی اجرت الگ لکھتے ہیں اور گاہک کو سوچنے کا وقت دیتے ہیں۔ اکثر وہ ہم سے بھاؤ تاؤ کرتا ہے، اور اگر معاملہ طے ہو جائے تو پیش کش ایک باقاعدہ بل بن جاتی ہے۔ پھر ہم اس میں سے کچھ رقم ایڈوانس وصول کرتے ہیں، جس کی وضاحت نہیں کرتے کہ یہ کس حصے کے لیے ہے، اور اس رقم سے جا کر تاجروں سے سامان خریدتے ہیں، گاہک کے پاس پہنچاتے ہیں، اور انسٹالیشن شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد باقی رقم اقساط میں لیتے رہتے ہیں۔
ہمارے ذمے یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے پیش کردہ سامان بازار سے ختم ہو جائے یا اس کی قیمت بڑھ جائے تو ہم متبادل سامان فراہم کریں یا کہیں اور سے مہیا کریں، اور اگر اس سے بھی ممکن نہ ہو تو رقم واپس کریں اور قیمت کے فرق کا بوجھ خود برداشت کریں۔ البتہ عمومی طور پر یہ سامان وقتِ ضرورت دستیاب ہوتا ہے۔ کبھی ہم وضاحت کی سطح پر سامان کو عام انداز سے بیان کرتے ہیں، اور کبھی اس کا برانڈ اور ماڈل نمبر تک لکھتے ہیں۔
ہماری یہ حقیقت بھی ہے کہ زیادہ تر گاہک جانتے ہیں کہ جب ہم انہیں سامان کی پیش کش کرتے ہیں تو وہ ابھی ہمارے پاس موجود نہیں ہوتا بلکہ ہم تاجروں کے ذریعے قیمت معلوم کر کے لاتے ہیں۔ تاجر بھی جانتے ہیں کہ ہم یہ قیمت اپنے گاہک کے لیے لے رہے ہیں۔ اس طرح وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کی چیز بکی، گاہک بھی مطمئن رہتا ہے کہ اسے بہتر قیمت ملی اور خرید و فراہمی کا بوجھ ہم نے اٹھا لیا۔ مزید یہ کہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم نہیں ہوتی کہ ہم از خود پورے کے پورے آرڈرز (جو بعض اوقات ہزاروں ڈالر کے ہوتے ہیں) اپنی جیب سے پورا کریں۔ اگر ہم سامان خرید لیں اور گاہک نے اچانک انکار کر دیا تو ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، کیونکہ ہم عام دکان دار نہیں کہ وہی سامان دوسروں کو بیچ دیں۔ اس صورت میں ہمیں اپنے کاروبار کا رخ بدل کر ریٹیل مارکیٹ میں جانا پڑے گا، اور گاہک کی پسند کے مطابق مہنگا سامان ذخیرہ کرنا ہمارے لیے مشکل اور نقصان دہ ہو گا۔
یہ ساری بات ہمارے دل میں کھٹک رہی ہے۔ ہم نے چاہا کہ اہل علم کے سامنے رکھیں تاکہ رہنمائی حاصل ہو۔ جب ہم نے خود تحقیق کی تو معاملہ ہمارے لیے پیچیدہ ہو گیا، کہ آیا یہ بیع سلم ہے یا کسی اور کی طرف سے بیع (بیع الفضولی)، یا اجرت پر وکالت ہے۔ ساتھ ہی ہم نے سوچا کہ چونکہ ہم گاہک کو ضمانت دیتے ہیں کہ اگر سامان نہ ملا تو ہم اس کا معاوضہ دیں گے، تو شاید اس وجہ سے یہ درست ہو۔ ہم نے بیعانے کی بیع وغیرہ کے احکام بھی دیکھے لیکن اب تک تشفی نہیں ہوئی۔
ہمارا سوال یہ ہے: ہماری یہ صورتِ حال شرعاً کس حکم میں آتی ہے؟ اور اگر یہ درست نہیں ہے تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہو گا؟
جواب کا خلاصہ
جواب کا متن
اگر گاہک ایسی ڈیوائسز خریدنا چاہتا ہے جو فی الحال آپ کی ملکیت میں نہیں، تو اس کے ساتھ حسبِ ذیل صورتوں میں شرعی طور پر معاملہ درست ہے:
اول: اجرت پر وکالت
اس کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ آپ گاہک کو مطلوبہ ڈیوائس اور اس کی صفات و اوصاف کے ساتھ اس کی مارکیٹ میں حقیقی قیمت سے آگاہ کریں، جس قیمت پر وہ فروخت ہو رہی ہے، اور اس قیمت میں کوئی اضافہ نہ کریں۔ پھر آپ اس کے لیے بطورِ وکیل وہ چیز خرید لیں، اور اس خدمت کے بدلے یا تو قیمت کے ایک متعین فیصد کی صورت میں معاوضہ لیں یا ایک طے شدہ اجرت وصول کریں۔ اس طریقے میں جب چیز وہی ہو جس کا اس نے مطالبہ کیا تھا تو گاہک کے لیے محض ارادہ بدلنے کی بنا پر پیچھے ہٹنا درست نہیں ہو گا۔ اگر وہ اس پر اصرار کرے تو آپ چونکہ اس کے وکیل ہیں، اس لیے آپ کو یہ اختیار ہو گا کہ ممکن ہو تو چیز کو اسی کے بائع کے پاس واپس کر دیں۔ آغاز میں یہ شرط بھی رکھی جا سکتی ہے کہ آپ خریداری اور عیب دار مال کی واپسی میں اس کے وکیل ہیں، مگر صحیح سالم چیز ہونے کی صورت میں محض ’’اقالہ‘‘ یا فسخ کے وکیل نہیں۔
اجرت کے باب میں راجح یہ ہے کہ اسے کسی معلوم چیز کے تناسب کے طور پر بھی متعین کیا جا سکتا ہے، جیسے قیمت کا فلاں فیصد، چاہے اجرت خریداری کے بدلے ہو یا فروختگی کے۔
چنانچہ ’’کشاف القناع‘‘(3/615) میں مساقات [یعنی :فصل، پھل دار درخت وغیرہ کی دیکھ بھال کے لیے کسی کو اسی زیر نگہداشت فصل یا پھل میں سے مخصوص تناسب پر رکھنا۔ مترجم] اور مزارعت [یعنی: زرعی زمین پر کھیتی باڑی کے لیے کسی کو اسی زمین کے زرعی محصول میں سے مخصوص تناسب پر رکھنا۔ مترجم] پر قیاس کرتے ہوئے اس نوع کی اجرت کا جواز بیان کیا گیا ہے کہ : ’’کسی کے سامان تجارت کو اس کے منافع کے معروف تناسب کے بدلے بیچنا‘‘ درست ہے۔ ختم شد
اسی طرح ’’فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ‘‘(13/125)میں ایک شخص نے دریافت کیا کہ وہ بیرونِ ملک کپڑوں اور غذائی اشیاء بنانے والی کمپنیوں کا ایجنٹ اور دلال ہے، کمپنیاں اپنی مصنوعات کے نمونے اور ہر آئٹم کی قیمتیں بھیجتی ہیں، وہ یہ مال بازار کے تاجروں کو کمپنی کی قیمت پر بیچتا ہے اور کمپنی سے طے شدہ تناسب کے ساتھ کمیشن لیتا ہے ؛کیا اس میں کوئی گناہ تو نہیں؟
جواب میں کہا گیا: اگر حقیقت وہی ہے جو آپ نے بیان کی ہے تو آپ کا یہ کمیشن لینا جائز ہے ، آپ پر کوئی گناہ نہیں۔
عبد اللہ بن غدیان، عبد الرزاق عفیفی، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔ ختم شد
وکالت کی صورت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ آپ گاہک کے لیے کسی چیز کی ضمانت اپنے ذمے نہ لیں، اس لیے کہ وکیل امین ہوتا ہے، وہ ضامن نہیں ہوتا، الا یہ کہ وکیل خود ہی نقصان کرے یا وکیل کی کوتاہی کی وجہ سے نقصان ہو۔
دوم: بیعِ مرابحہ
اس صورت میں آپ پہلے خود وہ ڈیوائس خریدیں جسے گاہک نے طلب کیا ہے، اور اس سے پہلے محض وعدے کے مرحلے میں اس سے کوئی رقم نہ لیں۔ آپ اپنی طرف سے نقد یا اُدھار جس طرح ممکن ہو خرید لیں، پھر جب وہ چیز آپ کے قبضے میں آ جائے تو آپ اسے گاہک کو ایک معلوم منافع کے ساتھ بیچ دیں، چاہے نقد بیچیں یا اقساط میں۔
مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر : (229091)ملاحظہ کریں۔
مزید سہولت کے لیے بہتر ہے کہ آپ اپنی خریداری میں اپنے لیے ایک مختصر مدت کا ’’خِیار الشرط‘‘ رکھ لیں تاکہ اگر خریدار اپنے وعدے سے پھر جائے تو آپ کے لیے یہ ممکن ہو کہ اسی مدت کے اندر اندر اس چیز کو اصل بائع کو واپس لوٹا دیں، یا اگر پسند کریں تو کسی دوسرے گاہک کو فروخت کر دیں۔
سوم: عقدِ سلم
اس کی صورت یہ ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کو جس کے اوصاف و صفات پوری طرح متعین ہوں فروخت کر دیں جسے آپ مخصوص دورانیے میں فراہم کرنے کے پابند ہوں اور اس کے لیے شرط یہ ہو کہ خریدار پوری قیمت مجلسِ عقد میں نقد ادا کرے۔ اس لیے کہ ’’بیع سلم‘‘ کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ’’ موصوف چیز کی بیع کسی کے ذمے لازم ہو جانا جس کی قیمت مجلسِ عقد میں نقداً وصول کی جائے اور موصوف چیز مقررہ میعاد کے اندر بعد میں دی جائے‘‘۔ جیسے کہ ’’ہدایۃ الراغب‘‘ ص 338 میں ہے: ’’السَّلَم شرعاً: عقدٌ على موصوفٍ في ذمّةٍ، مؤجّلٍ، بثمنٍ مقبوضٍ بمجلسِ عقدٍ۔‘‘
پس اگر گاہک پورا ثمن ادا کرنے سے انکار کرے تو بیع سلم صحیح نہیں ہو گی۔ اور یہ بات کہ آپ چیز کے فقدان کی صورت میں گاہک کو اس کا متبادل دیں گے، معتبر نہیں، کیونکہ سلم کی شرط وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے، اور اسے امام شافعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے مستنبط کیا ہے: مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ ترجمہ: ’’جو شخص کھجور کی بیع سلم کرے تو ادائیگی کرتے ہوئے معلوم پیمانے، معلوم وزن اور معلوم مدت تک کرے‘‘ (بخاری: 2240، مسلم: 1604)۔ پس حدیث کے لفظ ’’ فَلْيُسْلِفْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مجلسِ عقد ہی میں پوری قیمت پیش کر دی جائے، تاکہ معاملہ بیعُ الکالیءِ بالکالیءِ، یعنی نہ چیز ہے اور نہ ہی قیمت مطلب کہ معدوم کی معدوم کے عوض بیع نہ بنے، کیونکہ اس وقت مطلوبہ چیز حاضر نہیں ہوتی۔
’’مسائل الإجماع‘‘ (2/239)میں ابن القَطّان کے مطابق : ’’ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سَلم کا سودا تبھی درست ہوتا ہے جب سودا طے ہونے والی نشست (مجلس) میں ہی خریدار پوری قیمت فوراً ادا کر دے۔ اگر دونوں فریق ادائیگی کیے بغیر اُٹھ جائیں تو یہ سلم باطل ہے۔ البتہ امام مالک کے نزدیک ایک رعایت ہے: اگر شروع میں فوری ادائیگی کو شرط بنا کر لازم نہ کیا گیا ہو اور ایک دو دن کے اندر ہی قیمت ادا کر دی جائے تو اس میں حرج نہیں۔ ‘‘ ختم شد
اگر گاہک کی ضرورت ایسی ہو کہ کوئی چیز نئے سرے سے بنانی یا تیار کرانی ہو—جیسے کوئی پروگرام، سافٹ ویئر یا مخصوص ڈیوائس—تو یہ ’’استصناع‘‘ کا عقد ہو گا، اور اس میں پورا سرمایہ آغاز ہی میں دینا شرط نہیں، خواہ آپ خود تیار کریں یا کسی تیسرے فریق کاریگر سے تیار کرائیں۔
مزید کے لیے سوال نمبر : (2146) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس طرح ’’تیار شدہ بیچی جانے والی ڈیوائس‘‘ اور ’’وہ جو تیار کرنی مقصود ہو‘‘ میں شرعی فرق واضح ہو جاتا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب