جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اپنے ساتھیوں کو تعلیم دینا چاہتا ہے، لیکن وہ رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور جلن محسوس کرتے ہیں۔

سوال

میں اپنے بارے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے خیر کی نشر و اشاعت کرنے والا بنایا ہے، میری نیت بھی بالکل صاف ہوتی ہے، میں کوئی اپنی بڑائی بیان نہیں کر رہا، میں تو صدق دل سے یہی چاہتا ہوں کہ میرے ساتھیوں کے درمیان شرعی علم عام ہو ، تاہم کچھ امور جو ان کے جلنے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ خود بھی اس کا ذوق نہیں رکھتے ان کی وجہ سے میں کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

1- کیا میں پھر بھی ان کے پیچھے لگا رہوں؟ حالانکہ وہ توجہ بھی نہیں کرتے نیز مجھ سے جلتے بھی ہیں۔

2- میں ایسے کیا اقدامات کروں جن سے وہ میری بات ماننے لگیں؟

اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

لوگوں کو خیر و بھلائی کی دعوت دیتے ہوئے اس طرح کے معاملات پیش آنا معمول کی بات ہے، تو داعیان حق اور لوگوں کو دین سکھانے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ صبر اور نرمی سے کام لے، اور حکمت بھرا طریقہ اپنائے۔

اب آپ کے جو ساتھی دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ساتھی نہیں چاہتے تو آپ دینی علم حاصل کرنے کی ترغیب رکھنے والوں کو پڑھاتے رہیں اور نیکی کے اس کام کو جاری رکھیں روکیں مت۔

اب اگر کچھ لوگ حسد کریں یا جلن محسوس کریں تو خیر و بھلائی سکھانے والے کا اخلاق یہ ہوتا ہے کہ صبر کرے اور ان کی مبنی بر جہالت باتوں پر کان بھی نہ دھرے، یہ صفت قرآن کریم نے عباد الرحمن کی بتلائی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا

ترجمہ: رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو وہ سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔ [الفرقان: 63]

اگر وہ برا سلوک کریں تو اس کے بدلے میں آپ ان سے اچھا سلوک کریں، تو اس سے امید ہے کہ ان کے دلوں میں موجود منفی باتیں ختم ہو جائیں ، اور آپ کے اور ان کے درمیان شیطانی وسوسے جاتے رہیں۔

لیکن اگر سب کے سب ہی آپ کے درس میں نہیں بیٹھنا چاہتے تو پھر حکمت عملی یہ ہو گی کہ آپ انہیں مجبور نہ کریں؛ کیونکہ مجبور کرنے سے عام طور پر فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ان کے دلوں میں حق بات سے نفرت پیدا ہو گی۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ 

ترجمہ: اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے ۔[النحل: 125]

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حکمت: یہ ہوتی ہے کہ معاملات کو ان کا حقیقی مقام دیں، اس کے لئے مناسب وقت اور مناسب الفاظ استعمال کریں اور مناسب گفتگو کریں؛ کیونکہ کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی، ایسے ہی بعض اوقات ایسے آتے ہیں جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی۔

ایسے ہی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ کبھی بھی کسی بھی صورت میں وعظ و نصیحت نہ کریں، بلکہ آپ انتظار کریں کہ جب وہ نصیحت قبول کرنے کے موڈ میں ہو تو پھر اسے نصیحت کریں۔" ختم شد
" شرح رياض الصالحين" (4 / 73)

لہذا اگر ملازمت کی جگہ میں آپ کے ساتھی آپ سے علم حاصل کرنے کی رغبت نہیں رکھتے تو آپ دیگر لوگوں کو تلاش کریں جو حصولِ علم اور استفادہ چاہتے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب