ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

زیر ناف اور مخصوص جگہ کے بال لیزر کے ذریعے زائل کرنے والے کلینک پر کام کرنے کا حکم

سوال

میں نرس ہوں اور مجھے لیزر کے ذریعے بال صاف کرنےوالے کلینکپر منتقل کر دیا گیا ہے، یہاں پر حساس اعضا سمیت مکمل جسم کے بال صاف کیے جاتے ہیںجس کی وجہ سے مجھے ایک دن میں کئی بارلیزر پر کام کرنا پڑے گا، اور کچھ خواتین کے مخصوص حصے کی صفائی بھی کرنی ہو گی، تو شرعی طور پر میرے اس کام کا کیا حکم ہے؟ تو کیا میں اپنی اس ڈیوٹی کو جاری رکھوں یا چھوڑ دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصولی طور پر عورت کی شرمگاہ بھی عورت کے سامنے ڈھانپنا ضروری ہے، جو کہ ناف سے لیکر گھٹنے تک ہے، اس حصے کو کسی انتہائی ضرورت اور حاجت کی بنا پر دیکھا جا سکتا ہے اور فضول دیکھنا گناہ ہے ۔

چنانچہ بعض فقہائے کرام نے اس چیز کو بھی ضرورت میں شمار کیا ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنے زیر ناف بال صاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیتو اس کے بال کوئی اور عورت اتار دے، اسی طرح مرد ، مرد کے زیر ناف بال اتار سکتا ہے۔

جیسے کہ کشاف القناع (5/ 13) میں ہے کہ:
"معالج اور طبیبکے لیے ایسی جگہ کو دیکھنا اور چھونا جائز ہے جسے دیکھنے اور چھونے کی ضرورت ہے حتی کہ شرمگاہاور اس کے اندرونی حصےکو بھی دیکھنے اور چھونے کی اجازت ہے؛ کیونکہ یہاں ضرورت ہے۔نیز ظاہری طور پر یہ اجازت ذمی معالج اور طبیب کے لیے بھی ہے۔ فقہی کتاب المبدع اور المغنیمیں بھی یہی موقف ذکر ہوا ہے۔

تاہم یہ عمل عورت کے محرم یا خاوند کی موجودگی میں ہونا چاہیے؛ کیونکہ خلوت کی حالت میں حرام کام کے ارتکاب کا بہت زیادہ خطرہ ہے؛ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی مرد کسی عورتکے ساتھ تنہائی اختیار مت کرے وگرنہ تیسرا ان میں شیطان ہو گا۔) متفق علیہ

جس جگہ کو دیکھنا ضروری ہے صرف اسی جگہ کو کھلا رکھا جائے گا اور بقیہ جگہ کو ڈھانپ کر رکھے؛ کیونکہ بقیہ حصے کو دیکھنا حرام ہی ہے۔

معالج اور طبیب کے ساتھ مریض یا مریضہ کی خدمت پر وضو اور استنجا وغیرہ پر مامور شخصبھی شامل ہے، اسی طرح ان لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں جو کسی بھی مرد یا خاتون کو پانی میں ڈوبنے یا آگ میں جلنے سے بچائیں۔ انہی میں وہ شخص بھی شامل ہے جو کسی ایسے شخص کے زیر ناف بال صاف کرتا ہے جو خود صاف نہیں کر سکتا۔ آخری بات صراحت کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔

اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معالج ذمی کو بھیاس کی اجازت ہے، اسی طرح کسی عورت کا کنوارہ اور عدم کنوارہپن اور اسی طرح بالغ پندیکھنے کے لیے بھی جائز ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو بنی قریظہ کے بارے میں فیصل بنایا تھا تو آپ ان کے تہہ بند کھول کر چیک کرتے تھے۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہکے پاس ایک لڑکے کو لایا گیا جس نے چوری کر لی تھی تو آپ نے کہا: اس کا تہہ بند کھول کر چیک کرو، تو انہوں نے دیکھا کہ ابھی اس کے زیر ناف بال نہیں آئے تھے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا۔" ختم شد

اسی طرح علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح رہے کہ شرمگاہ کو دیکھنے یا چھونےکی حرمت اس صورت میں ہے جب دیکھنے یا چھونے کی ضرورت نہ ہو،لیکن جہاں ضرورت ہوتو دیکھنا اور ہاتھ لگانا دونوں ہیجائز ہیں مثلاً حجامت بنانی ہے یا علاج کرنا ہے، تو چاہے شرمگاہ کی جگہ ہی کیوں نہ ہو انتہائی ضرورت کے وقت وہ بھی جائز ہے کیونکہ اسے حرام کہا جائے تواس میں کافی حرج ہو گا۔" ختم شد
"مغني المحتاج" (4/215)

عز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگلی اور پچھلی شرمگاہ کو چھپا کر رکھنا واجب ہے، یہ بہت ہی اچھی عادتبھی ہے اور اجنبی خواتین سے اسے خصوصاً چھپا کر رکھا جائے گا۔
تاہم ضرورت اور حاجت کی صورت میں دیکھنا جائز ہے۔
حاجت کی مثال یہ ہے کہ: میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح طبیب حضرات علاج معالجے کی غرض سے دیکھ سکتے ہیں۔

ضرورت کی مثال: ایسے زخموں کی مرہم پٹیجن سے عضو کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہو۔

شرمگاہ کو دیکھنے کے لیےانتہائی ضرورت اور حاجت کی شرط لگائی جاتی ہے جو کسی اور پردے والے حصے کو دیکھنے پر نہیں لگائی جاتی ۔

اسی طرح عورتوںکے پردے والی جگہ دیکھنے کے لیے وہ شرائط لگائی جاتی ہیں جو مردوں کی شرمگاہ دیکھنے کے لیے نہیں لگائی جاتیں؛ کیونکہ ان کی شرمگاہ دیکھنے کی وجہ سے فتنے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح گھٹنوں کے قریب والے حصے کو دیکھنےکا معاملہ سرین کو دیکھنے جیسا نہیں ہے۔" ختم شد
"قواعد الأحكام" (1/165) مختصراً اقتباس مکمل ہوا

ایسی خاتون جو اپنے زیر نافاور اس کے ارد گرد کے بال خوداتار سکتی ہو تو اس کے لیے اپنی اس جگہ کو دوسروں کے سامنے کھولناجائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کے زیر ناف حصے کو دیکھنا جائز ہے۔

لیزر کے ذریعے بال زائل کرنا جائز ہے، تاہم اگر کسی کے لیے نقصان ثابت ہو جائے تو اس کے لیے لیزر سے بال زائل کرنا جائز نہیں ہے۔

اگر شرمگاہ کی جگہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کے لیے شرط یہ ہے کہ:
"شرمگاہ کھولنا انتہائی ضروری ہو، مثلاً: بال اتنے گھنے ہوں کہ ان بالوں کو عمومی ذرائع کے ذریعے زائل کرنا کار آمد ثابت نہ ہوتا ہو یعنی نوچنے یا مونڈنے سے کوئی فائدہ نہ ہو ، اور نہ ہی لیزر کے ذریعے لیڈی ڈاکٹر کی زیر نگرانی متعلقہ خاتون خود ہی اپنے بال زائل کر سکتی ہو" جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (95891 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔

چنانچہ اگر کسی عورت کو لیزر کے ذریعے بال زائل کرنے کی انتہائی شدید ضرورت نہیں ہےتو اس عورت کو اپنا سترکھولنے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی آپ اس کے جسم کو دیکھیں اور نہ ہی اس کے بال اتاریں، ہاں اگر یہ ممکن ہو کہ آپ انہیں سمجھا دیںاور اپنی شرمگاہ والی جگہوںسے خود ہی زائل کر لیں۔

دوم:

لیزر یا موچنے کے ذریعے ابرو کے بال زائل کرنا حرام ہے، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (218579 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب