سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

چہرے کی سرخ سوزش اور روزہ

سوال

میں روزے تو رکھ رہی ہوں لیکن ساتھ میں (Cortisone) دوائی سے علاج بھی ہو رہا ہے، مجھے یہ دوائی کھانے کے لیے فجر سے پہلے کا وقت دیا گیا ہے، لیکن میں دوائی لینا بھول گئی، اور اذان کے بعد مجھے دوائی یاد آئی اور مجھے اذان ہونے کے بعد مجبوراً دوا لینا پڑی کیونکہ اگر دوائی نہ لوں تو گردہ کام نہیں کرتا ، تو کیا میں اپنا روزہ پورا کروں یا روزہ توڑ دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ کے سوال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ (Cortisone) نامی دوائی گولیوں ، یا شربت کی صورت میں استعمال کرنے کے بارے میں سوال کر رہی ہیں۔

اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر اس دوا کو یقینی طور پر طلوع فجر صادق ہونے کے بعد لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا؛ تو چونکہ آپ مریض ہیں اس لیے رمضان مکمل ہونے کے بعد آپ اس دن کی قضا دیں گی، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مریض کو رمضان میں روزہ خوری کی اجازت دی ہے، تاہم مریض ان دنوں کے روزے کی قضا بعد میں دے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَمَنْ كَانَ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ 

 ترجمہ: اور جو بھی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دیگر ایام میں [روزوں کی] گنتی پورے کرے۔[البقرة:185]

اور اگر آپ (Cortisone) نامی دوائی انجیکشن کی صورت میں لے رہی ہیں تو پھر اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا؛ کیونکہ علمائے کرام کے راجح موقف کے مطابق اگر غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے ٹیکہ نہ لگایا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مثلاً ایسے محلول جو مریضوں کو ان کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔

اس بارے میں مکمل تفصیلات آپ سوال نمبر: (38023) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

دوم:

آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے دوائی مسجد کے مؤذن کے اذان دینے کے بعد لی تھی۔ تو اس بارے میں یہ ہے کہ شہروں اور دیہاتوں میں عام طور پر مؤذن حضرات رمضان کیلنڈر کا اعتبار کرتے ہوئے اذان دیتے ہیں، اور ان کیلنڈروں کو فلکی حساب کتاب کی بنیاد پر ترتیب دیا جاتا ہے، لہذا مؤذن حضرات خود سے فجر صادق نہیں دیکھتے اور کیلنڈروں پر اعتماد کرتے ہوئے اذان دے دیتے ہیں؛ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب شہروں میں عام طور پر آنکھوں سے فجر صادق کے طلوع ہونے کا مشاہدہ مشکل ہو گیا ہے۔

اور ان رمضان کیلنڈروں میں نماز فجر کے وقت کی تعیین میں غلطی پائے جانے کے بارے میں اختلاف بہت مشہور ہے، کچھ اسلامی ممالک میں اس مسئلے کے متعلق کمیٹیاں قائم کی گئی اور ان کمیٹیوں کے معتمد افراد نے یہ رپورٹ پیش کی کہ: فجر صادق رمضان کیلنڈروں میں مقرر کردہ وقت سے اتنی دیر بعد میں طلوع ہوتی ہے کہ اس وقت میں انسان دوا کھا سکتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ وقت ہوتا ہے۔

اس موقف کو بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے ان میں شیخ البانی ، اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ موجو دہیں، نیز علوم فلکیات کے کچھ ماہرین بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔

واضح رہے کہ منٹوں کا یہ اختلاف سال کے موسموں کے اعتبار سے الگ الگ ہوتا ہے، اسی طرح ملکی سطح پر جس زاویے کو علم فلکیات کے اعتبار  سے طلوع فجر کے حساب کے لیے معتبر سمجھا ہے اس کے تبدیل ہونے سے بھی منٹ الگ ہو سکتے ہیں۔

لہذا یہ بات مشہور ہے کہ رمضان کیلنڈروں میں غلطی پائی جاتی ہے، اس لیے یہ طلوع فجر کے لیے یقینی وقت فراہم نہیں کرتے، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالی نے روزے دار کے لیے اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت دی ہے جب تک فجر صادق طلوع نہیں ہو جاتی۔

فرمان باری تعالی ہے:

 وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ  

ترجمہ: اس وقت تک کھاؤ اور پیو جب تک تمہارے لیے سفید دھاگا [افق میں سفید روشنی]سیاہ دھاگے [افق میں موجود سیاہی]سے فجر کے وقت واضح ہو جائے۔ [البقرة:187]

تو جو بات ظاہر ہوتی ہے -حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے۔-وہ یہ ہے کہ اگر آپ نے دوائی اذان فجر کے تھوڑی دیر بعد ہی لے لی کہ ابھی تک صحیح معنوں میں طلوع فجر صادق نہ ہوئی ہو تو آپ کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر آپ نے کافی دیر کے بعد دوا لی ہے تو پھر اس دن کی قضا آپ دیں گی۔

نوٹ:

بہ ہر حال افضل یہی ہے کہ مسلمان رمضان کیلنڈر کے مطابق ہی سحری کا اختتام کیا کریں؛ کیونکہ یہ روزے کے لیے محتاط عمل ہو گا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (66202) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب