الحمد للہ.
اول:
امام وتر کے بغیر تراویح اس لیے پڑھائے کہ نمازی رات کے آخری حصے میں وتر ادا کر سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز ایسے نمازیوں کے بارے میں امید ہے کہ اس حدیث کا مصداق بن جائیں گے جسے نسائی: (1364)، ترمذی: (806)، ابو داود: (1375) اور ابن ماجہ: (1327) نے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں پورے رمضان میں قیام نہیں کروایا یہاں تک کہ صرف 7 راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اتنا لمبا قیام کروایا کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر جب 6 راتیں باقی رہ گئیں تو آپ نے ہمیں قیام نہیں کروایا، تاہم جب 5 راتیں باقی رہ گئیں تو ہمیں تقریباً آدھی رات تک قیام کروایا، تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کتنا اچھا ہوتا کہ آپ ہمیں اس رات کو مزید قیام کرواتے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( جو آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے یہاں تک امام نماز پڑھا کر چلا جائے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھ دیا جاتا ہے۔)" اس حدیث کو البانیؒ نے "صحیح سنن نسائی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو اس حدیث میں وارد اجر اسی وقت حاصل ہو جائے گا جب آدمی امام کے ساتھ آخر تک قیام کرے، چاہے امام وتر پڑھائے یا نہ پڑھائے۔
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص امام کے ساتھ نماز تراویح پڑھتا ہے، لیکن رات کے آخری حصے میں ہونے والے قیام میں شریک نہیں ہوتا تو کیا اسے ساری رات کے قیام کا ثواب ملے گا؟
انہوں نے جواب دیا:
جو شخص امام کے ساتھ آخر تک قیام کرے تو اسے پوری رات قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، بشرطیکہ اس کے امام نے انہیں وتر رات کے پہلے حصے میں پڑھا دیے ہوں، پھر اگر وہ شخص رات کے آخری حصے میں قیام کرنے والے امام کے ساتھ بھی قیام کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ تاہم اب دوسری بار بھی وتر مت ادا کرے اگر اس نے پہلے امام کے ساتھ وتر ادا کر لیے تھے، چنانچہ اب دوسرے امام کے ساتھ وتر مت پڑھے، اللہ تعالی نے جس قدر نماز پڑھنا مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ پڑھ لے لیکن وتر دوبارہ نہ پڑھے، چنانچہ اگر دوسرا امام وتر پڑھاتا ہے تو یہ بھی سات وتر پڑھ لے لیکن سلام پھرنے کے بعد ایک رکعت مزید شامل کر کے انہیں جفت بنا لے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے۔ مثلاً: ایک شخص مسجد الحرام میں وتر پڑھ لیتا ہے، یا مسجد الحرام کے علاوہ کسی اور جگہ پہلے امام کے ساتھ ہی وتر پڑھ لیتا ہے ، لیکن اگر پہلا امام وتر پڑھاتا ہی نہیں ہے تو یہ بھی نہیں پڑھتا تو یہ الحمد للہ، اچھا ہے۔ تاہم پہلے نے وتر پڑھائے اس کے ساتھ مقتدی نے بھی وتر پڑھ لیے تو یہ اب دوسرے امام کے ساتھ وتر مت پڑھے، تاہم دوسرے امام کے ساتھ جتنا ہو سکے قیام کر لے، اس کے ساتھ وتر نہ پڑھے ، اگر پڑھ بھی لے تو اس کو ایک رکعت اور شامل کر کے جفت بنا لے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے)" ختم شد
فتاوى نور على الدرب (9/ 460)
حدیث میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ امام لازمی طور پر مقتدیوں کو وتر پڑھائے۔
اور جو کچھ صحابہ کرام کے عمل سے منقول ہے وہ حدیث کو مقید کرنے کے لیے معتبر نہیں ہے، لہذا اسے صحابہ کرام کا اپنا ذاتی عمل کہا جائے گا۔
تاہم افضل یہی ہے کہ امام انہیں وتر پڑھا دے، ہاں اگر امام نے رات کے آخری حصے میں دوبارہ سے پھر قیام کروانا ہے تو پھر وتر نہ پڑھائے۔
یہاں اس عمل کی افضلیت کی دلیل یہ ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت صحابہ کرام کو قیام کروایا تھا آپ نے انہیں وتر بھی پڑھایا تھا، اسی طرح صحابہ کرام بھی اسی طریقے پر قیام کرتے رہے تھے، بلکہ صحابہ کرام کا قیام رات کے اول حصے میں ہوا کرتا تھا۔
جیسے کہ محمد بن نصر مروزی سے "قیام اللیل" صفحہ: (217) پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان میں ایک رات 8 رکعتیں اور ایک وتر پڑھایا، پھر جب اگلی رات آئی تو ہم پھر مسجد میں اکٹھے ہو گئے ؛ ہماری تمنا تھی کہ آپ آج بھی قیام کروائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے مسجد میں نہ آئے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم پر وتر لازم نہ کر دیا جائے۔)
اسی طرح امام مالک موطا: (4) میں سائب بن یزید سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا: "عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما سے کہا کہ تم دونوں سب نمازیوں کو گیارہ رکعات قیام کروائیں، راوی کہتے ہیں کہ: امام صاحب 200 آیتیں پڑھتے تو ہم لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے، نیز ہم قیام اللیل سے فراغت پا کر فجر کے قریب قریب ہی گھروں کو واپس جاتے تھے۔"
اس لیے افضل تو یہی ہے کہ امام وتر پڑھا دے، اور تم اس وتر کو ایک اور رکعت شامل کر کرے جفت بنا لو، پھر رات کے آخری حصے میں امام جب نماز پڑھنا چاہے تو وتر پڑھے بغیر قیام کر لے۔
اسی طرح "كشاف القناع" (1/ 427) میں ہے کہ:
"اگر (رات کے آخری حصے میں )تہجد بھی پڑھنے والا اپنے امام کی مکمل اقتدا کرنا چاہے تو امام کے ساتھ وتر پڑھ لے لیکن جب امام طاق رکعت پڑھا کر سلام پھیرے تو ساتھ میں ایک رکعت اور ملا کر اسے جفت بنا لے، پھر جب اٹھ کر تہجد پڑھنے لگے تو اپنا وتر پڑھ لے، اس طرح یہ شخص امام کی نماز میں مکمل اتباع کی فضیلت بھی پا لے گا، اور اپنے وتر کو سب سے آخر میں ادا کرنے کی فضیلت بھی حاصل کر لے گا۔
اگر کوئی شخص تنہا یا با جماعت وتر ادا کر چکا ہو اور پھر وتر ادا کرنے کے بعد مزید نفل ادا کرنا چاہے تو اپنے وتر کو مزید ایک رکعت کے ساتھ جفت مت بنائے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنے وتر کو توڑتا ہے اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ اپنے وتروں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے۔ اس اثر کو سعید وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
وہ شخص طلوع فجر صادق تک جتنی مرضی دو، دو رکعتیں ادا کرتا رہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے، وہ شخص بعد میں دوبارہ وتر نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ اس نے تہجد سے پہلے وتر ادا کر لیے تھے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایک رات میں دو بار وتر نہیں ہوتے) اس حدیث کو امام احمد، اور ابوداود نے قیس بن طلق کے واسطے سے بیان کیا ہے، اور قیس میں قدرے کمزوری پائی جاتی ہے" ختم شد
سوال میں مذکور وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں شامل ہونے والے افراد متعین اور محدود ہیں، اور سب کے سب ہی اپنے اپنے گھروں میں جا کر اہل خانہ کو با جماعت قیام کروائیں گے، تو ان پر کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی رات کے آخری حصے تک وتروں کو مؤخر کرنے میں کسی قسم کی کوئی کراہت ہے، بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے یہ ان کے لیے افضل اور بہتر ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (رات کی آخری نماز؛ وتروں کو بناؤ) اس حدیث کو امام بخاری: (998) اور مسلم : (751)نے روایت کیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (37729) اور (216236) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر اگر وتر فوت ہونے کا خدشہ نہ ہو تو وتروں کو سب سے آخر میں پڑھنے کی فضیلت کے ساتھ ساتھ گھر میں با جماعت نفل نماز پڑھنا رات کے اول حصے میں وتر پڑھنے سے افضل ہو گا؛ کیونکہ سب لوگوں نے وتروں کے بعد اپنے اپنے گھروں میں جا کر دوبارہ سے نماز ادا کرنی ہے، نیز یہاں اس چیز کی بھی امید ہے کہ تراویح کے متعلق سنت میں جتنے طریقے احادیث میں آئے ہیں ان سب پر بھی عمل ممکن ہو گا، اور امام کے ساتھ مکمل قیام کا ثواب بھی انہیں ملنے کی امید ہے؛ کیونکہ ان کا امام بھی وتر ادا نہیں کرے گا۔
دوم:
تراویح کی نماز میں متعدد امام ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تمام امام ایک ہی امام کے حکم میں ہوں گے، چنانچہ اگر کوئی شخص تمام اماموں کے تراویح پڑھانے تک ان کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اسے مکمل اجر ملے گا۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک شخص پہلے امام کے ساتھ نماز تراویح پڑھتا ہے اور اس کے جانے کے ساتھ ہی گھر چلا جاتا ہے، اور اس کا ماننا ہے کہ مجھے حدیث کے عین مطابق ساری رات کے قیام کا ثواب ملے گا؛ کیونکہ میں نے امام کے ساتھ قیام کا آغاز کیا تھا اور امام کے ساتھ ہی اسے مکمل کیا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"سائل کا یہ کہنا کہ: جو امام کے ساتھ قیام کرے اور امام کے نماز مکمل کرنے تک ساتھ رہے تو اسے ساری رات قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔
لیکن ایک مسجد کے دو اماموں کو الگ الگ امام شمار کیا جائے گا یا دونوں الگ الگ امام ہوں گے؟ یا پھر دوسرا امام پہلے کا نائب شمار ہو گا؟
محسوس یہ ہوتا ہے کہ دوسرا امام پہلے امام کا نائب شمار ہو گا، یعنی دوسرا امام پہلے امام کی پڑھائی ہوئی نماز کو مکمل کرنے والا ہو گا۔
لہذا جس مسجد میں دو امام نماز تراویح پڑھائیں تو دونوں ایک ہی امام شمار ہوں گے؛ لہذا ہر شخص اس وقت تک نماز ادا کرے جب تک دوسرا امام بھی نماز سے فارغ نہیں ہو جاتا؛ کیونکہ ہم یہ بات پہلے جان چکے ہیں کہ دوسرا امام پہلے امام کی نماز مکمل کراتا ہے۔
اس بنا پر میں اپنے بھائیوں کو حرم مکی اور مسجد نبوی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مکمل نماز تراویح ادا کیا کریں تا آں کہ تراویح مکمل ہو جائے۔" ختم شد
"مجموع فتاوی و رسائل ابن عثیمین" (13/ 436)
واللہ اعلم