ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

عورتوں كے ليے نماز تروايح ادا كرنے كا حكم

سوال

كيا عورتوں پر نماز تروايح كى ادائيگى ہے، اور كيا ان كے ليے گھر ميں ادا كرنا افضل ہے، يا وہ اس غرض كے ليے مسجد جائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز تراويح سنت مؤكدہ ہيں، اور عورتوں كے حق ميں گھر ميں ہى قيام الليل كرنا افضل ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم اپنى عورتوں كو مساجد سے منع نہ كرو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں "

سنن ابو داود باب ماجاء فى خروج النساء الى المسجد: باب التشديد في ذلك، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 7458 ).

بلكہ عورت كى نماز جتنى مخفى اور پوشيدہ جگہ ميں ہو گى اتنى ہى افضل ہو گى، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عورت كا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنا اس كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور اس كا اپنے پچھلے كمرہ ميں نماز ادا كرنا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے "

سنن ابو داود كتاب الصلاۃ باب ما جاء في خروج النساء الى المسجد حديث نمبر ( 483 ) اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 3833 ).

اور ابو حميد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر كہنے لگى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

مجھے علم ہے كہ تجھے ميرے ساتھ نماز ادا كرنا محبوب ہے، تيرا اپنے گھر كے اندر والے كمرہ ميں نماز ادا كرنا گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنا گھر كے احاطہ ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور گھر كے احاطہ ميں نماز ادا كرنا قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے"

راوي بيان كرتے ہيں كہ: انہوں نے اپنے گھر ميں بالكل آخرى كونے اور اندھيرى جگہ ميں نماز ادا كرنے كى جگہ تيار كروائى تو وہ فوت ہونے تك وہيں نماز ادا كرتى رہيں.

مسند احمد حديث نمبر ( 25842 ) اس كے رجال ثقات ہيں.

ليكن يہ افضليت انہيں مسجدوں ميں جانے كى اجازت دينے سے منع نہيں كرتى، جيسا كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جب تمہارى عورتيں مسجدوں ميں جانے كى اجازت مانگيں تو انہيں مسجدوں ميں جانے سے منع نہ كرو"

بلال بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ہم انہيں ضرور منع كرينگے، تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى نے ان كى جانب متوجہ ہو كر انہيں بہت ہى سخت الفاظ ميں برا بھلا كہا ايسا ميں نےكبھى بھى ان سے نہيں سنا تھا، اور انہيں كہنے لگے: ميں نے تجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث بتائى ہے، اور تو كہتا ہے كہ ہم انہيں ضرور منع كرينگے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 667 ).

ليكن عورت مندرجہ ذيل شروط پر عمل كر كے مسجد جا سكتى ہے:

1 - مكمل اور پورى باپرد ہو كر نكلے.

2 - خوشبو اور عطر وغيرہ نہ لگايا ہو.

3 - خاوند كى اجازت سے جائے.

اور اس كے نكلنے ميں كوئى اور حرام كام مثلا ڈرائيور كے ساتھ خلوت اور اكيلے جانا وغيرہ نہ ہو.

اگر ان مذكورہ اشياء ميں سے عورت نے كسى كى بھى مخالفت كى تو خاوند اور اس كے سربراہ كو مسجد جانے سے منع كرنے كا حق حاصل ہے، بلكہ اس پر اسے منع كرنا واجب ہے.

ميں نےاپنے استاذ اور شيخ عبد العزيز سے نماز تروايح كے متعلق اور خاص كر عورت كا مسجد ميں نماز كى افضليت كے بارہ ميں سوال كيا تو انہوں نے نفى ميں جواب ديا، كہ عورت كى گھر ميں نماز كى افضليت والى احاديث عام ہيں جو تراويح اور غير تراويح سب كو شامل ہيں. واللہ اعلم

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائيوں كے ليے اخلاص اور قبول كى دعا كرتے ہيں، اور اللہ تعالى ہمارے اعمال كو اپنے پسنديدہ بنائے اور ہم پر راضى ہو، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد