ہفتہ 2 ربیع الثانی 1446 - 5 اکتوبر 2024
اردو

طواف میں ہونے والی غلطیاں

سوال

ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ طواف شروع کرتے وقت طواف کی نیت زبان سے ادا کرتے ہیں ، اوریہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ حجر اسود تک پہنچنے کے لیے بہت زيادہ زورآزمائى اورشدید دهكم پيل بهى کرتے ہیں ، معاملہ جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے ، ان کاموں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ وہ غلطیاں ہیں جودوران طواف کی جاتی ہیں جسکی کئی اقسام ہیں:

اول :

طواف کا ارادہ کرتے وقت نیت کے الفاظ کی ادائيگى: آپ دیکھیں گے کہ حاجی جب طواف کرنا چاہے تووہ حجراسود کی جانب متوجہ ہوکریہ الفاظ کہتا ہے : "اے اللہ! میں نے عمرہ کے لیے سات چکر لگانے کی نیت کی" ، یا یہ کہے گا: "اے اللہ !میں نے حج کے لیے سات چکروں کا طواف کرنے کی نیت کرتا ہوں" ، یا یہ کہے گا: "اے اللہ! میں تیرے تقرب کے لیے طواف میں سات چکرلگانے کی نیت کرتا ہوں "

حالانکہ نیت کے الفاظ کی زبان سے ادائيگى بدعت ہے اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ توایسا کیا اورنہ ہی اپنی امت کوایسا کرنے کا حکم دیا ، اورجوکوئى بھی اللہ تعالی کی عبادت ایسے طریقے سے کرتا ہے جس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت نہیں کی اورنہ ہی اپنی امت کواس طرح کرنے کا حکم دیا ، تواس نے اللہ تعالی کے دین میں بدعت ایجاد کی جودین میں شامل نہیں ۔

لہذا طواف کیلئے زبان سے نیت کی ادائيگى غلط اوربدعت ہے ، اورپهر جس طرح یہ شرعی طور پرغلط ہے اسی طرح عقلی طور پربھی غلط ہے کیونکہ نیت توایسا معاملہ ہے جوآپ کے اور رب کے درمیان ہے ، اوراللہ تعالی تو سینوں بھید بھی جانتا ہے ، اوراسے یہ بھی علم ہے کہ آپ یہ طواف کرینگے ، اورجب اللہ سبحانہ وتعالی کو اس کا علم ہے توپھراس کی کوئى ضرورت نہیں کہ آپ اللہ تعالی کے بندوں کے لیے بھی ظاہر کریں ۔

اور آپ سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی طواف کیا اوراس میں انہوں نے نیت کی ادائيگى زبان سے نہيں کی اوراسی طرح صحابہ کرام رضى اللہ تعالی عنہم نے بھی آپ سے قبل طواف کیا اورانہوں نے بھی نیت کے الفاظ اپنی زبان سے ادا نہيں کیے اورنہ ہی طواف کے علاوہ باقی دوسری عبادات میں نیت کے الفاظ کی ادائيگى کی لہذا ایسا کرنا غلط اوربدعت ہے ۔

دوم :

بعض لوگ حجراسود اوررکن یمانی کوچھونے کے لیے بہت زيادہ دهكم پيل کرتے ہیں بلکہ ایسا شدید ازدھام کرتے ہیں کہ انہيں خود بھی تکلیف ہوتی ہے اوروہ دوسروں کو بھی تکلیف سے دوچار کرتے ہیں ، اوربعض اوقات تویہ دھکم پیل خواتین کے ساتھ بھی ہوتی ہے اورہوسکتا ہے شیطان اسے ورغلائے اورخاتون کے ساتھ دھکم پیل کرتے وقت اس تنگ جگہ میں شہوت سے دوچار کردے ، اورانسان تو بشرہے ہوسکتا ہے اس پر نفس امارہ برائى غالب کردے تووہ اس جگہ اوربیت اللہ کے پاس برائى کا مرتکب ہوجائے ، اوریہ معاملہ بہت بڑا اورسنگین جرم بن جائے گا کیونکہ یہ جگہ بھی عظیم ہے ویسے تو یہ ہرجگہ ہی فتنہ کا باعث ہے ۔

پھر حجر اسود اوررکن یمانی کوچھونے یعنی استلام کرنے کےلیے دھکم پیل اورازدھام کرنا شرعی کام نہيں ، بلکہ شرعاً تو یہ ہےکہ اگر آسانی سے میسر ہوسکے تو پھراستلام کيا جائے ، اوراگرمیسر نہيں ہوتا تو پھر حجر اسود کی طرف اشارہ ہی کافی ہے ۔

لیکن رکن یمانی کے بارہ میں یہ ثابت نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جانب اشارہ کیا ہو ، اورحجر اسود پربھی اسے قیاس کرنا ممکن نہيں ، کیونکہ حجر اسود اس سے عظیم ہے ، اورپھر حجر اسود کے بارہ میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارہ کرنا ثابت بھی ہے ۔

جیسا کہ اس حالت میں ازدھام اوردھکم پیل کرنی مشروع نہيں ، اسی طرح اگرعورت کے ساتھ دھکم پیل ہو تواس سے فتنے کا خدشہ ہے، اور اس سے سوچ اوردل میں تشویش پیدا ہوتی ہے، اس لیے کہ دھکم پیل کے وقت انسان کو لازمی طور پرناگوار باتیں سننی پڑتی ہیں ، جسکی وجہ سے وہ اس جگہ کوچھوڑتے ہوئے اپنے آپ پرغیظ وغضب محسوس کرتا نظر آئے گا۔

طواف کرنےوالے کےلیے ضروری ہے کہ وہ طواف میں اطمئنان اورسکون اوروقار اختیار کرے تا کہ وہ صحیح طریقہ سے اللہ تعالی کی اطاعت میں مگن ہوسکے اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( بیت اللہ کا طواف،و صفا مروہ کی سعی، اور جمرات کو کنکریاں مارنا صرف اللہ تعالی کے ذکر کے لیے)

سوم :

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حجر اسود کا بوسہ لیے بغیر طواف صحیح نہیں ہوگا، اورحجراسود کا بوسہ لینا طواف کے لیے شرط ہے ، اوراسی طرح حج اورعمرہ کے صحیح ہونے کے لیے بھی اس کا بوسہ لینا شرط ہے ، ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے ، اس لیے کہ حجراسود کوچومنا ايك سنت ہے، اوربھی مستقل سنت نہيں بلکہ صرف طواف کرنے والے کے لیے سنت ہے ، مجھے اس کا علم نہيں کہ طواف کے بغیر بھی حجر اسود کا بوسہ لینا مسنون ہے، لہذا اس بنا پرہم یہ کہيں گے کہ :

جب حجراسود کا بوسہ لینا سنت ہے اورواجب اور شرط نہیں ہے توجوشخص حجراسود کا بوسہ نہيں لیتا ، اسکے بارے میں ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اس کا طواف صحیح نہیں یا پھراس کا طواف ناقص ہے اور اس بنا پراُسے گناہ ہوگا ، بلکہ اس کا طواف صحیح ہے، چانچہ اگر وہاں پر شدید ازدھام ہوتوپھر استلام کی بجائے صرف اشارہ کرنا ہی افضل ہے ، اس لیے کہ ازدھام کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی عمل کیا تھا ، اوراس لیے بھی کہ انسان اس طرح ایک دوسرے کو تکلیف دینے سے بچ جائیں گے۔

لہذا اگر کوئى سائل ہمیں یہ پوچھتا ہے کہ : مطاف میں بھيڑ ہوتوآپ کی رائے کیا ہے کہ آیا میں دھکم پیل کرکے حجراسود کا بوسہ لوں اوراس کا استلام کروں یا افضل اوربہتر یہ ہے کہ میں صرف اس کی طرف اشارہ ہی کرلوں ؟

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے :

افضل اوربہتر یہ ہے کہ آپ اس کی طرف اشارہ کرلیں ، کیونکہ سنت طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح ثابت ہے ، اورسب سے بہتر اورافضل طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی ہے ۔

چہارم :

رکن یمانی کا بوسہ لینا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رکن یمانی کا بوسہ لینا ثابت نہیں ہے ، اورجب کوئى عبادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو تواسےبجالانا بدعت ہے اورکسی بھی لحاظ سے وہ قربِ الہی کا ذریعہ نہیں بن سکتی ، تواس بنا پرانسان کے لیے جائز نہيں کہ وہ رکن یمانی کا بوسہ لے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہیں ، بلکہ یہ ایسی ضعیف حدیث سے ثابت ہے جوحجت کے قابل ہی نہیں ہے ۔

پنجم :

بعض لوگ جب حجر اسوديا ركن يمانى كا استلام کرتے وقت اُسے کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اس كے ليے اپنا بايا ہاتھ آگے بڑھاتے ہيں اورایسا کرنا غلط ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائيں ہاتھ سے افضل اوربہتر ہے ، اوربایاں ہاتھ توایسے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو ناگوار سے ہوں ، مثلا اس سے استنجاء ، اورناک وغیرہ صاف کیا جاتا ہے ، لیکن بوسہ لینے اوراحترام والی جگہوں میں تودایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے ۔

ششم :

لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حجراسود اوررکن یمانی کا استلام تبرّک ہے نہ کہ عبادت لہذا وہ تبرک کے لیے اسے چھوتےاوراستلام کرتے ہیں ، حالانکہ یہ بلاشک وشبہ مقصد ہی نہیں ہے، کیونکہ حجراسود کا استلام اوراس کا بوسہ لینے کا مقصد تواللہ تعالی کی تعظيم ہے ، اوراسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجراسود کا استلام کیا تواللہ اکبر کہا ، جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا مقصد اللہ تعالی کی تعظیم ہے نہ کہ اس پتھرکوچھو کرتبرک حاصل کرنا ۔

اوراسی لیے امیر المومنین عمررضى اللہ تعالی عنہ نے حجراسود کا استلام کرتے اوراس کا بوسہ لیتے ہوئے یہ فرمایا تھا : "اللہ کی قسم مجھے یہ علم ہےکہ توایک پتھر ہے نہ توکوئى نفع دے سکتا ہےاورنہ ہی کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے ، اوراگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا "

اس غلط گمان - حجراسود اوررکن یمانی کا استلام تبرک کے لیے کیا جاتا ہے - نے تولوگوں کویہاں تک پہنچا دیا ہےکہ وہ اپنے چھوٹے سے بیٹے کولاتے ہیں اوراپنے ہاتھ سے حجراسود یا رکن یمانی کو چھو کر پھر وہی ہاتھ جس سے اس نے حجراسود یا رکن یمانی چھوا تھا اپنے بچے پرپھیرتے ہیں ۔

یہ ایسا اعتقاد ہے جس سے روکنا ضروری ہے ، اورلوگوں کو یہ بیان کرنا لازمی ہے کہ اس طرح کےپتھر نہ توکوئى نفع دے سکتے ہیں اورنہ ہی کسی بھی قسم کا نقصان دیتے ہیں، اورانہیں چھونے اوراستلام کرنے کا مقصد توصرف اورصرف اللہ تعالی کی تعظیم اور احیائے ذکر الہی کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء وپیروی ہے ۔۔۔۔

یہ اوراسی طرح کے دوسرے اعمال شرعی نہيں بلکہ یہ بدعات ہیں جن پر عمل کرنے والے کوکسی بھی قسم کا فائدہ نہيں ہوسکتا ، لیکن اگر ایسا کرنے والا جاہل ہو اوراس کے ذہن میں یہ بات تک نہ آئے کہ ایسا کرنا بدعت ہے توامید ہے کہ اسے معافی مل جائے گی ، لیکن اگر اسے علم ہے کہ یہ کام بدعت ہے اوریا پھر وہ دینی معاملات ومسائل کا علم حاصل کرنے میں سستی وکاہلی سے کام لیتا ہے توپھر وہ گنہگار ہوگا ۔

ہفتم :

بعض لوگ ہرچکر کے لیے ایک مخصوص دعاکرتے ہیں :

یہ بھی ایک ایسی بدعت ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضى اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرچکر کے لیے کوئى خاص دعا کی ، اورنہ ہی صحابہ کرام میں سےکسی ایک نے ایساکیا ، اور زیادہ سے زیادہ یہ ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکن یمانی اورحجراسود کے درمیان مندرجہ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے :

ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی اچھائی اوربہتری عطا فرما اورآخرت میں بھی اچھائی اوربہتری عطا فرما اورہمیں جہنم کی آگ کے عذاب سے نجات عطا فرما ۔

جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بیت اللہ کا طواف اورصفامروہ کی سعی اورجمرات کوکنکریاں مارنا تواللہ تعالی کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہیں)

پھر ان بدعات میں اور زیادہ غلطیاں اس وقت ہوتی ہیں جب طواف کرنے والا شخص ایک چھوٹی سے کتاب اٹھائے ہوئے ہوتا ہےجس میں ہرایک چکر کی خاص دعا لکھی گئى اوروہ اس پمفلٹ کوپڑھتارہتا ہےلیکن اسے علم نہيں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے ، یا توعربی زبان سے جہالت کی بنا پر اُسے علم نہیں کہ اس کا معنی کیا ہے، یا پھر ہے تووہ عربی اورعربی بولتا بھی ہے لیکن اسے علم نہيں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے ، حتی کہ ہم بعض سے توایسی دعائيں سنتے ہیں جوحقیقت میں واضح تحریف شدہ ہوتی ہيں ، جیسے ہم نے ایک کہنے والے کو سنا:

(اللهم أغنني بجلالك عن حرامك ) حالانکہ صحیح یہ ہے کہ : ( اللهم أغنني بحلا لك عن حرامك ) اے اللہ مجھے اپنی حلال روزی کے ساتھ حرام سے مستغنی کردے ۔

اسی طرح ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض لوگ یہ کتابیں پڑھتے ہیں اورجب کسی چکر کی دعا ختم ہوجاتی ہے تووہ دعا سے رُک جاتے ہیں اورباقی چکر میں کوئی دعا نہیں کرتے، اور جب مطاف میں رش نہ ہو اورچکر جلدختم ہوجائے اوردعا ختم نہ ہو تووہ دعا بھی وہیں ختم کردیتے ہیں ۔

اس کا علاج یہ ہے کہ ہم حجاج کرام بتلائیں اوروضاحت کریں کہ انسان کے لیے طواف میں کسی بھی قسم کی دعا کرنی جائز ہے اورجوچاہے دعا کرسکتا ہے ، اور جو چاہے اللہ تعالی کا ذکر کرسکتا ہے ،لہذا لوگوں کے سامنے جب یہ بیان کیا جائے گا تو غلطیاں ختم ہو جائیں گیں۔

ایسی بدعات میں پڑنے والے شخص کا حکم :

ایسے اعمال کرنے والوں کی کئى اقسام ہیں :

• یا تووہ بالکل جاہل ہے اوراس کے ذہن میں ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ ایسا کرنا حرام ہے ، توایسے لوگوں کےلیے امید کی جاسکتی ہے کہ ان پرکوئى گناہ نہيں ۔

• لیکن جسے علم ہو اوروہ جان بوجھ کرایسا کرے اورخود بھی گمراہ ہو اوردوسروں کوبھی گمراہ کرنے کا باعث بنے توبلاشک وشبہ وہ گنہگار ہے اوراس کی اقتداء اورپیروی کرنے والے کا گناہ اس پر بھی ہوگا ۔

• اور وہ شخص جو جاہل ہے لیکن اہل علم سے سوال کرنے میں سستی اورکاہلی سے کام لیتا ہے توایسے شخص کے بارہ میں خدشہ ہے کہ وہ سوال کرنے میں کوتاہی کرنے کی بنا پرگنہگار ہوگا ۔

یہ وہ غلطیاں ہم نے پیش کی ہیں جو طواف میں کی جاتی ہیں ، ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مسلمان بھائيوں کواصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا ، تا کہ ان کا طواف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو ، کیونکہ سب سے بہتر طریقہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ، اوردین کوئی ایسا معاملہ نہيں کہ یہ جذبات اورخیالات سے حاصل کیا جائے بلکہ دین تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لینے سے حاصل ہوتا ہے .

ماخذ: انتہی : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی کتاب : دلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج والمعتمر سے لیا گیا ہے ۔