الحمد للہ.
جمہور فقھاء كرام كا مسلك ہے كہ:
اگر عجمى شخص عربى صحيح طور پر جانتا ہو تو اس شخص كے ليے عربى كے علاوہ كسى اور زبان ميں تكبير كہنى جائز نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ نصوص اسى لفظ كا حكم ديتى ہيں، جو كہ عربى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے ہٹے نہيں.
ليكن اگر عجمى شخص صحيح عربى نہيں جانتا، اور وہ عربى بول ہى نہيں سكتا، تو جمہور فقھاء كرام كے مسلك كے مطابق وہ اپنى زبان ميں تكبير كہہ سكتا ہے ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اپنى زبان ميں اس كا ترجمہ صحيح كرے، شافعيہ اور حنابلہ نے يہى بيان كيا ہے.
چاہے كوئى بھى زبان ہو، كيونكہ تكبير اللہ تعالى كا ذكر ہے، اور اللہ تعالى كا ذكر ہر زبان ميں ہو سكتا ہے، اور غير عربى زبان اس كى بديل اور قائم مقام ہے، ليكن اس كے ليے عربى سيكھنا لازم ہے.
اس خلاف كى بنا پر نماز كى سب دعائيں، تشھد، قنوت، دعاء، ركوع اور سجدہ كى تسبيحات بھى.
ليكن قرآن مجيد كى قرآت عربى زبان كے علاوہ كسى اور زبان ميں كرنى جائز نہيں، اس كے عدم جواز كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
بلا شبہ ہم نے قرآن مجيد كو عربى زبان ميں نازل فرمايا ہے .
اور اس ليے بھى كہ قرآن مجيد لفظا اور معنى معجزہ ہے، چنانچہ جب يہ بدل جائے تو اپنے نظام سے نكل جائيگا، اور قرآن نہيں رہے گا، بلكہ يہ اس كى تفسير ہو گى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ جلد ( 5 ) اعجمى
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فصل:
" اسے عربى كے علاوہ كسى اور زبان ميں قرآت كفائت نہيں كرے گى اور نہ ہى اس كے الفاظ عربى زبان ميں بدل كر پڑھنا جائز ہے، چاہے وہ عربى ميں قرآت اچھى كر سكتا ہو يا اچھى نہ كر سكتا ہو.
كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
يہ قرآن عربى ہے .
اور ارشاد ربانى ہے:
يقينا ہم نے قرآن مجيد عربى زبان ميں نازل فرمايا .
اور اس ليے بھى كہ قرآن مجيد لفظا اور معنا دونوں لحاظ سے معجزہ ہے چنانچہ جب اسے بدل ديا جائے تو يہ اپنى ترتيب سے نكل جائيگا اور عربى نہيں رہے گا اور نہ ہى اس كى مثل ہو گا، بلكہ يہ اس كى تفسير ہو گى، اور اگر اس كى مثل تفسير بھى ہوتى تو جب اللہ تعالى نے انہيں اس كى مثل ايك سورۃ لانے كا چيلنج كيا تو وہ اس سے عاجز نہ ہوتے.
اگر وہ عربى ميں قرآت اچھى طرح نہ كر سكتا ہو تو اسے اس كى تعليم حاصل كرنا لازم ہے، اگر قدرت اور استطاعت ركھنے كے باوجود وہ تعليم حاصل نہيں كرتا تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى.
اور اگر وہ قدرت نہ ركھے، يا پھر وقت نكل جانے كا خدشہ ہو اور اسے سورۃ فاتحہ كى ايك ہى آيت آتى ہو تو وہ اسے سات بار دھرائے كر نماز ادا كرلے.
اور اسى طرح اگر اسے اس سے زيادہ آيات ياد ہوں تو اس كى مقدار ميں دھرائے، اور يہ بھى محتمل ہے كہ وہ اس سورۃ كے علاوہ كسى اور سورۃ كى آيات پڑھ لے.
ليكن اگر اسے آيت كا كچھ حصہ ياد ہو تو اسے بار بار اور تكرار سے پڑھنا لازم نہيں، بلكہ وہ اسے چھوڑ كر كسى اور كو پڑھ لے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو جسے نماز صحيح طرح پڑھنى نہيں آتى تھى كو فرمايا كہ وہ " الحمد للہ " وغيرہ كہے، اور يہ آيت كا كچھ حصہ ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے يہ تكرار كے ساتھ پڑھنے كا حكم نہيں ديا.
اور اگر اسے سورۃ فاتحہ ميں سے كچھ بھى ياد نہ ہو، بلكہ قرآن كى كوئى اور سورۃ آتى ہو اگر طاقت ركھے تو اسى كو سورۃ فاتحہ كے حساب سے پڑھ لے، اس كے علاوہ كسى اور كو كافى نہيں ہوگا.
اس كى دليل ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى درج ذيل حديث ہے:
رفاعہ بن رافع بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تو نماز كھڑا ہو، اگر كچھ قرآن ياد ہو تو وہ پڑھ لو، وگرنہ اللہ كى حمد بيان كرو، الحمد للہ، اور اس كى وحدانيت بيان كرتے ہوئے لا الہ الا اللہ كہو، اور اس كى تكبير بيان كرتے ہوئے اللہ اكبر كہو "
اور اس ليے بھى كہ يہ اس كى جنس سے ہے، تو يہ بالاولى پڑھا جا سكتا ہے، اور سورۃ فاتحہ كى آيات كى تعداد كے برابر پڑھنا واجب ہے...
اور اگر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھى نہ پڑھ سكتا ہو، اور وقت نكلنے سے قبل اس كے ليے قرآن سيكھنا بھى ممكن نہ ہو تو اس حالت ميں اس كے ليے سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، لا حول ولا قوۃ الا باللہ، كہنا لازم ہے.
اس كى دليل ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى درج ذيل حديث ہے:
ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں قرآن مجيد سے كچھ ياد نہيں كرسكتا، لہذا آپ مجھے كوئى ايسى چيز ياد كرائيں جو ميرے ليے اس سے كفائت كر جائے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، لاحول ولاقوۃ الا باللہ .. كہو"
واللہ اعلم .