الحمد للہ.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی کے نزول کے متعلق احادحث تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ( ہررات کو جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب آسمان دنیا پر نزول فرما کر یہ کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کا پکار کو قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے دوں ، اور کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور میں اسے معاف کردوں ۔۔ ) ۔
اھل سنت والجماعت کا اس اجماع ہے کہ صفت نزول اللہ تعالی کے لۓ اسی طرح ثابت ہے جس طرح کہ اس کے شایان شان اور لائق ہے وہ اپنی صفات میں سے کسی بھی صفت میں مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے :
کہہ دیجۓ کہ اللہ تعالی ایک ہے ، اللہ تعالی بے نیاز ہے ، نہ تو وہ کسی کو جنتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہو ہے ، اور نہ ہی اس کا کوئ ہمسر ہے
اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
اس کی مثل کوئ چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔
تو اھل سنت والجماعت کے ہاں یہ واجب ہے کہ صفات والی آیات اور احادیث کو اسی طرح رکھا جاۓ جس طرح کہ وہ آئ ہیں ان میں کسی قسم کی تحریف اور تغییر اور نہ ہی تعطیل اور کیفیت اور نہ ہی مثال بیان کی جاۓ ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ایمان اور اعتقاد رکھا جاۓ کہ وہ آیات اور احادیث جس پر دلالت کررہی ہیں وہ حق ہے جس میں اللہ تعالی کی صفات مخلوق کے مشابہ نہیں اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کی جاسکتی ہے ۔
بلکہ اھل سنت کے ہاں تو صفات میں بھی وہی قول ہے جو اللہ تعالی کی ذات میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح اھل سنت اللہ تعالی کی ذات کوبغیر کسی کیفیت اور مثال ثابت کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالی کی صفات کے ثبوت میں بھی کسی قسم کی مثال اور کیفیت نہیں ہے ، تو نزول الہی بھی اسی طرح ہے جس طرح کہ اس کے شایان شان ہے کیونکہ اللہ تعالی کا نزول مخلوق کے نزول کی طرح نہیں ، اللہ تعالی کا یہ وصف ہےکہ وہ رات کے آخری حصہ میں دنیا کے ہرحصہ میں اس طرح نزول فرماتا ہے جس طرح کہ اس کے لائق ہے ، تو جس طرح اللہ تعالی کی ذات کے متعلق اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اور نہیں جانتا اسی طرح اس نزول کی کیفیت اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اور نہیں جانتا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
اس کی مثل کوئ نہیں اوراللہ تعالی سننے والا دیکھنے والا ہے ۔
اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
تو تم اللہ تعالی کے لۓ مثالیں نہ بیان کرو بیشک اللہ تعالی جانتااور تم نہیں جانتے ۔
اور رات کے آخری حصہ کا پہلا اور آخری حصہ ہر زمانے میں اس کے اعتبارسے معروف ہے ، وہ اس طرح کہ اگر رات نو گھنٹے کی ہو تو رات کا ساتواں حصہ اللہ تعالی کے نزول کا اول وقت ہے حتی کہ طلوع فجر تک ہے ، اوراگر رات بارہ گھنٹے کی ہو تو رات کے تیسرے حصہ کی ابتدا نویں گھنٹے کے شروع میں ہو گی جو کہ طلوع فجر تک ہے ، اور اسی طرح ہرجگہ پر رات کے چھوٹے اور بڑا ہونے کےحساب سے وقت کم اورزیادہ ہوتا رہتا ہے ۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے ۔ .