اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک خاتون کے بیٹے کا ذہنی توزان درست نہیں ہے، تو کیا یہ دعا کر سکتی ہے کہ وہ مر جائے؟

350573

تاریخ اشاعت : 07-11-2024

مشاہدات : 832

سوال

میرا بیٹا ذہنی طور پر بیمار ہے، میں ہمیشہ اس کی موت کی دعا کرتی ہوں؛ کیونکہ میں اب مزید اس کی کفالت نہیں کر سکتی ویسے بھی وہ بڑا ہو گیا ہے اور اس کا باپ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے، اب وہ جسمانی طور پر طاقتور بھی ہو چکا ہے، مجھے مارتا بھی ہے، میں نے اس پر دم کرنے کی بھی کوشش کی ہے، اور تعلیمی اداروں میں بھی اسے داخل کروایا ہے، میں اسے پڑھانے کی کوشش بھی کرتی ہوں، میں نے اس کے شفا یاب ہونے کی کئی بار نذر بھی مانی ہے، لیکن اس کی شفا ابھی تک اللہ تعالی کی منشا میں شامل نہیں ہے، تو اب میں اس کے مرنے کی دعا کروں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ میں دعا میں یہ کہتی ہوں: یا اللہ! اسے شفا عطا فرما، یا جلد ہی اپنے پاس بلا لے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پیاری بہن!

ایسی بد دعا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ یا اولاد کے بارے میں بد دعا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم: (3014) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو بد دعائیں نہ دو، نہ ہی اپنی اولاد کو بد دعا دو، نہ ہی اپنے مال کو بد دعا دو؛ مبادا قبولیت کی گھڑی ہو اور تم اللہ تعالی سے جو مانگو وہی تمہیں دے دیا جائے۔)

اور اگر آپ کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کی اس بچے کے خلاف بد دعا قبول کرے گا، تو آپ یہ نظریہ کیوں نہیں رکھتیں کہ اللہ تعالی آپ کی اس بچے کے لیے شفا یابی کی دعا قبول فرمائے گا، اور اسے صحتمند فرما کر اس کے لیے خیر مہیا فرمائے گا؟!

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا:

ایک خاتون کا بڑا بیٹا اپنے باپ کو دیکھ کر کچھ گناہوں میں ملوث ہو گیا ہے، جس کی بنا پر والدہ اپنے اس بیٹے سے نفرت کرنے لگی ہے کہ وہ اپنے باپ کی تقلید میں حرام کام کیوں کرنے لگا ہے اور اللہ کا خوف کیوں نہیں کرتا، چنانچہ والدہ اپنے اس بیٹے کے خلاف بد دعا کرتی ہے، اب اس خاتون کا سوال ہے کہ بچے کے خلاف بد دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“اپنے بچے کے بارے میں موت کی بد دعا کرنا غلط ہے، انسان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ جب کسی غلط کار شخص کو دیکھے تو اسے موت کی بد دعا دے، بلکہ حتی الامکان اسے نصیحت کریں، اور اللہ تعالی سے اس کے لیے ہدایت طلب کریں؛ کیونکہ معاملات اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، اور دل اللہ تعالی کی انگلیوں کے درمیان ہیں اللہ تعالی ان دلوں کو جیسے چاہے پھیر دیتا ہے، کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن اللہ تعالی اس کا حصول آسان بنا دیتا ہے، اس لیے محترمہ آپ بالکل مایوس نہ ہوں کہ اللہ تعالی آپ کے بچے کو ہدایت نہیں دے گا، بلکہ ہمیشہ اس کی ہدایت کی دعا کرتی رہیں اور اسے سمجھاتی رہیں، اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔” ختم شد
“فتاوى نور على الدرب” (6 / 13 – 14)

تو آپ کے لیے یہ نصیحت ہے کہ اپنے بچے کے خلاف بد دعائیں نہ کریں، بلکہ اس کی شفا یابی اور ہدایت سمیت دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی دعائیں کریں، آپ اللہ تعالی سے مانگیں کہ اللہ تعالی اسے آپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنا دے، اور آپ کو اس کے شر سے بچائے۔

آپ اپنے کسی محرم مرد سے مدد لے سکتی ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ رابطے میں رہے، تو اس طرح آپ کا بیٹا ممکن ہے کہ اس سے ڈر جائے اور آپ کو تکلیف نہ دے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے بیٹے کو شفا یاب فرمائے، اور آپ کی تکلیف دور فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب