الحمد للہ.
سامان تجارت کے متعلق واجب یہ ہے کہ جب سال پورا ہو تو قیمت فروخت کے مطابق اس کا ریٹ لگایا جائے، اگر سامان تجارت متعدد شریک افراد کا ہو اور ان میں سے کسی ایک کی زکاۃ کا سال مکمل ہو چکا ہو تو سارے مال کی قیمت لگائی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ اس میں اس کا حصہ کتنا تھا؟ چوتھائی یا آدھا؟ اگر اس کا حصہ بذات خود نصاب کی مقدار کے برابر ہو، یا اس کے ساتھ دیگر سامان تجارت ، یا نقدی یا سونا یا چاندی ملانے سے نصاب پورا ہوتا ہو تو اس کی زکاۃ ادا کر دے۔
سامان تجارت کی زکاۃ دیتے ہوئے اس پر آنے والے اخراجات ، یا مزدوروں کی مزدوری، دکان کا کرایہ، بجلی وغیرہ کے بل، بلکہ زکاۃ دینے والے پر اگر قرض ہے تو اس قرض کو بھی منہا نہیں کیا جائے گا، نیز راجح قول کے مطابق اگر سامان تجارت بذات خود ادھار اٹھایا گیا ہو تو اسے بھی منہا نہیں کیا جائے گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22426 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ یہاں صرف یہ دیکھا جائے گا کہ اس چیز کی مارکیٹ ویلیو کیا ہے؟ اور وہ عام طور پر قیمت فروخت کے برابر ہی ہوا کرتی ہے۔
اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ زکاۃ اسی مال کی دی جائے گی جو سال کے مکمل ہونے پر موجود ہو گا، اگرچہ ایک مال سے دوران سال کئی بار چیزوں کو خریدا بھی جاتا ہے اور فروخت بھی کیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی صرف ایک بار ہی زکاۃ دی جائے گی، اور وہ بھی صرف اسی مال کی جو سال پورا ہونے پر موجود ہے۔ اس لیے اخراجات نفع اور تجارتی سرکل میں موجود مال سے پورے ہو جایا کرتے ہیں۔
اس بنا پر: اگر مال کی قیمت 34 پونڈ ہے، اور زکاۃ دینے والا ایک چوتھائی کا مالک ہے تو اس کا حصہ اس میں سے 8.5 تھا، تو وہ اس کی زکاۃ ادا کرے گا چاہے یہ بذات خود نصاب کے برابر ہو جائے یا اپنے ساتھ ملنے والے دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب پورا کر دے، تو وہ اس میں سے 40 واں حصہ زکاۃ ادا کرے گا۔
واللہ اعلم