جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

کیا کوئی نو مسلم شخص اپنے گھر والوں کے ڈر سے جمعہ چھوڑ سکتا ہے؟ غسل خانے میں نماز پڑھ سکتا ہے اور رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہے؟

367640

تاریخ اشاعت : 16-04-2022

مشاہدات : 3842

سوال

میں نوجوان ہوں اور کچھ عرصہ قبل ہی میں نے اسلام قبول کیا ہے ابھی تک میرے گھر والوں کو کچھ نہیں پتا، لیکن انہیں میرے بارے میں شک ہو گیا ہے ؛کیونکہ انہیں میرے سامان میں سے قرآن کریم ملا تھا تب سے وہ میرا موبائل پابندی سے چیک کرتے رہتے ہیں، مجھے پرکھنے کے لیے مجھ سے شراب لانے اور خریدنے کا بھی کہتے ہیں؛ میں با دل نخواستہ ان کی بات مان لیتا ہوں کیونکہ نہ ماننے کی صورت میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے، میں چاہتا ہوں کہ میں یونیورسٹی میں داخل ہو جاؤں تو پھر کچھ حد تک خود مختار ہو جاؤں گا، اور میری نگرانی بھی کچھ حد تک کم ہو جائے گی، میرے درج ذیل سوالات ہیں: 1-شراب لانے اور خریدنے کے بارے میں ان کی بات مان سکتا ہوں؟ 2- جس فریج میں شراب موجود ہو تو اس کا دروازہ کسی بھی چیز کو اٹھانے کے لیے کھولنا بھی شراب اٹھانے کے ضمن میں آئے گا؟ 3- مجھے بسا اوقات نماز کی جگہ نہیں ملتی تو میں غسل خانے میں نماز ادا کر لیتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے؟ 4- میں رمضان میں کیا کروں؟ کبھی گھر والے کھانا کھانے کا کہتے ہیں تو میں انہیں کہہ دیتا ہوں کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے، کبھی انہیں دکھانے کے لیے کھانے کی پلیٹ اٹھا لیتا ہوں اور پھر کھانا کوڑے دان میں ڈال دیتا ہوں؛ لیکن کبھی مجھے ایسا کرنے کی بھی گنجائش نہیں ملتی اور میں روزہ توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہوں تو کیا میرے لیے روزہ توڑنا جائز ہو گا؟5- میں جمعہ اور با جماعت نماز ادا نہیں کر سکتا، کیا مجھ پر جمعہ کی نماز ادا کرنا واجب ہے؟ اور کیا مجھے نماز با جماعت کا ثواب ملے گا؟ کیونکہ مجھے با جماعت نماز کا موقع نہیں ملتا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو توفیق دی اور ہدایت سے نوازا، ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے ثابت قدمی مانگتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو بھی اسلام کی دولت سے نوازے جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔

دوم:

اگر آپ کو اپنے گھر والوں کی جانب سے اسلام کی وجہ سے تکلیف، دباؤ اور آزمائش کا سامنا ہے کہ آپ ایسے واجبات ادا نہیں کر پاتے جن کو ادا کرنے کی آپ میں صلاحیت ہے، یا ایسے حرام کام آپ کو کرنے پڑتے ہیں جن سے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے تو یہ آپ کا قابل قبول عذر ہے۔

مذکورہ بالا پیراگراف آپ کے بیان کردہ تمام تر سوالات کا اجمالی جواب ہے، بلکہ یہ اسی جیسے ان سوالات کا بھی جواب ہے جو ان کے علاوہ آپ کو پیش آ سکتے ہیں، کیونکہ یہ دین بہت آسان ہے، اور اللہ تعالی کسی کو بھی اس کی استطاعت سے بڑھ کر کسی کام کا مکلف نہیں بناتا، اس دین میں واجب کام معذوری کی وجہ سے کالعدم بھی ہو جاتے ہیں، اور مجبوری کی صورت میں حرام کاموں کی گنجائش بھی نکل آتی ہے۔

1-شراب لانا اور خریدنا حرام ہے، اس لیے آپ ان کاموں سے بچنے کے لیے کوئی عذر تلاش کر لیں یا کوئی حیلہ استعمال کرتے ہوئے شراب لانے یا خریدنے کے عمل کو کم کر لیں، لیکن اگر آپ کے لیے اس سے بچنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

2-شراب والے فریج یا فریزر کا دروازہ کھولنے کو شراب اٹھانا شمار نہیں کیا جائے گا؛ چاہے آپ کے دروازہ کھولنے سے شراب ہل جائے، یہاں شراب اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ شراب اٹھا کر کسی جگہ رکھنا یا شراب نوشی کے لیے مہیا کرنا ہے؛ یہ عمل حرام ہے کیونکہ یہ شراب نوشی کی اعانت ہے؛ اس لیے کہ شراب نوشی کے لیے ہمہ قسم کی اعانت حرام ہے۔

3-نماز کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا عظیم ترین رکن ہے، کسی بھی وجہ سے نماز کے معاملے میں سستی یا کوتاہی روا نہیں ہے، کھڑے ہو کر، بیٹھ کر یا لیٹ کر حسب استطاعت نماز لازمی پڑھنا ہو گی بلکہ سیلاب اور درندے کے آگے بھاگتے ہوئے اشاروں سے یا چلتے پھرتے نماز ادا کی جائے گی، لہذا جس شخص کی بھی عقل قائم ہے تو نماز اس سے ساقط نہیں ہو گی، لیکن اگر وقت پر نماز ادا کرنا مشقت کا باعث ہو تو ظہر اور عصر ، اسی طرح مغرب اور عشا جمع تقدیم یا تاخیر کے ساتھ جمع کر لیں۔ یہ آسانیاں محض اللہ تعالی کا خصوصی فضل ہیں۔

جبکہ غسل خانے میں نماز ادا کرنا منع ہے چاہے یہ محض غسل کی جگہ ہی کیوں نہ ہو، یا صرف قضائے حاجت کی جگہ کیوں نہ ہو؛ کیونکہ ہر دو صورت میں شیاطین کے رہنے کی جگہیں ہیں اور یہاں پر ستر کھولا جاتا ہے، جیسے کہ سنن ترمذی: (317) ، سنن ابو داود: (492) اور ابن ماجہ: (745) میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قبرستان اور غسل خانے کے علاوہ ساری کی ساری زمین نماز کی جگہ ہے) اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے نیز البانی نے بھی صحیح سنن ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حمام میں نماز ادا کرنا درست نہیں ہے، اس لیے ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا، اور ایسی صورت میں آپ دو نمازیں جمع کر سکتے ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک عیسائی لڑکا گھر والوں سے چھپ کر مسلمان ہو گیا ہے اور اگر اس کے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو اسے آزمائش میں ڈال دیں گے، یہ لڑکا ابھی چھوٹا ہے اور اسکول میں پڑھتا ہے، اسے نماز ادا کرنے کی کوئی جگہ نہیں ملتی، اسے خدشہ ہے کہ اگر اس کے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو کسی اور ملک میں بھی بھیج دیں گے، یا اسے سخت آزمائش سے گزرنا پڑے گا یہ لڑکا ابھی کمزور دل ہے اس کے لیے ثابت قدم رہنا مشکل ہو گا تو کیا یہ غسل خانے میں نماز ادا کر سکتا ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"ظاہر یہی ہے کہ اگر نماز ادا کرنے کے لیے اسے کوئی جگہ نہیں ملتی تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ اپنے گھر والوں کے سامنے نماز ادا کرتا ہے تو گھر والوں کو مسلمان ہونے کا پتہ چل جائے گا، لیکن اگر جگہ نہ ملے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم ایسا ممکن ہے کہ کچھ نمازوں کے لیے اسے جگہ مل جائے اور کچھ نمازوں کے لیے نہ ملے ، تو ایسی صورت میں جب نماز کے لیے جگہ مل جائے تو نماز لازمی ادا کرے ؛ کیونکہ حمام اور قبرستان میں نماز سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر جگہ نہ ملے تو نماز نہیں چھوڑنی حمام میں نماز ادا کر لے۔" ختم شد
4-رمضان کے روزے فرض ہیں، روزے چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اس لیے آپ روزے رکھنے کے لیے کوئی بھی حیلہ استعمال کریں جیسے کہ آپ نے سوال میں بھی ذکر کیا ہے، آپ فجر سے قبل روزے کی نیت کر لیں، پھر اگر آپ کو اپنا روزہ چھپانے کی کوئی گنجائش نہ ملے تو آپ روزہ افطار کر سکتے ہیں، پھر اس روزے کی قضا آپ دیں گے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (188856 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

5-مسلمانوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنا مؤکد ترین واجب ہے، بلا عذر جمعہ چھوڑنے والا شخص شدید وعید کے نشانے پر ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (865) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: (لوگ جمعہ ترک کرنے سے باز آ جائیں گے یا پھر اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دے گا اور پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔)

اسی طرح ابو داود: (1052) ، سنن نسائی: (1369) ، سنن ترمذی: (500) ، اور سنن ابن ماجہ: (1125) میں ہے کہ سیدنا ابو جعد ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص سستی کرتے ہوئے تین جمعے چھوڑ دے تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

آپ جمعہ کے لیے جاتے ہوئے لیکچر، یا دوست سے ملاقات یا خریداری یا سیر و تفریح کا نام لے کر صبح گھر سے آیا کریں اور جمعہ کی نماز ادا کر لیا کریں اور فی الحال خطبہ چاہے نہ سنیں۔

اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو یہ آپ کا قابل اعتبار عذر ہے، آپ پر ان شاء اللہ کوئی گناہ نہیں ہو گا، تاہم ظہر کی چار رکعات ادا کریں۔

6- اور جہاں تک بات اجر کی ہے تو جو عمل بھی آپ کسی عذر کی وجہ سے ترک کریں ، لیکن آپ کی دلی چاہت ہو کہ آپ وہ عمل بجا لائیں تو ان شاء اللہ آپ کو اس پر اجر ملے گا؛ کیونکہ صحیح بخاری: (4423) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت غزوہ تبوک سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب ہوئے تو فرمایا: (یقیناً مدینہ میں کچھ لوگ ہیں جو ہر جگہ چلنے اور ہر وادی عبور کرنے میں تمہارے ساتھ تھے، [یعنی اجر میں شریک تھے] اس پر صحابہ کرام نے کہا: مدینہ میں رہتے ہوئے بھی!؟ تو آپ نے فرمایا: جی ، مدینہ میں رہتے ہوئے بھی؛ کیونکہ انہیں عذر نے روک لیا تھا۔ )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب عمل کرنے سے کسی عذر نے روک لیا ہو تو انسان محض اپنی نیت کی بنا پر عمل کرنے والے کے برابر اجر پا لیتا ہے۔" ختم شد

آخر میں ہم آپ کو یہ بتلانا چاہیں گے کہ ہمیں آپ کے سوال سے بہت خوشی ہوئی، اور یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالی نے آپ پر کرم فرمایا، آپ کے رابطے اور سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی ہمیں مسرت ملی، نیز ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ثابت قدم بنائے، اور آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور آپ کی رہنمائی فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب