الحمد للہ.
کسی بھی کمپنی یا بینک یا آن لائن اسٹور پر سرمایہ کاری کرنے کے جواز کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:
1-سرمایہ کہاں لگایا جائے گا؟ اس کا علم ہو اور شرعاً جائز بھی ہو۔ لہذا ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری جائز نہیں ہو گی جس کی تجارتی سرگرمیوں کا علم نہ ہو؛ کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کا مال سودی لین دین میں استعمال کیا جائے، یا کسی اسٹاک ایکسچینج جیسے حرام کام میں لگایا جائے، یا پھر جوے میں لگایا جائے یا شراب کی خرید و فروخت کی جائے، یا کوئی اور حرام چیز کا لین دین کیا جائے۔
2-رأس المال یقینی طور پر محفوظ نہ ہو، چنانچہ کمپنی نقصان کی صورت میں رأس المال واپس کرنے کی پابند نہ ہو، بشرطیکہ کی کمپنی کی طرف سے کوئی کوتاہی یا سستی نہ ہو، چنانچہ یہ نہ ہو کہ کمپنی نے عمداً اپنا نقصان کیا ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب رأس المال یقینی طور پر محفوظ ہو گا تو یہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ حقیقت میں قرض ہو گا، اور اس سے ملنے والا فائدہ سود کہلائے گا۔
3- نفع کی شرح تناسب متعین ہو، نیز یہ تناسب رأس المال کو دیکھ کر نہیں بلکہ مجموعی نفع کو دیکھ کر مقرر کی جاتی ہو، مثلاً: سرمایہ کار کو ایک تہائی، یا نصف ملے یا 20 فیصد نفع ملے ، رأس المال کا تہائی یا نصف نہیں۔
یہاں یہ بھی درست نہیں ہے کہ منافع کی شرح تناسب مقرر نہ ہو، چنانچہ اگر شرح تناسب مقرر نہ ہوئی تو اس سے شرعی طور پر بیع فاسد ہو جائے گی۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (5/ 24-27)میں کہتے ہیں:
"مضاربت کے درست ہونے کے لیے کاریگر کے حصے کا مقرر ہونا لازمی ہے؛ کیونکہ یہ حصہ مقرر ہو گا تو اسے نفع ملے گا، اگر مقرر ہی نہ ہو تو اس کا حصہ نکالنا ناممکن ہو گا۔"
پھر آگے چل کر مزید لکھا ہے کہ:
"اگر کوئی شخص کسی کاریگر کو کہے کہ : یہ مال بطور مضاربت رکھو اور تمہیں بھی نفع کا حصہ ملے گا، یا تم نفع میں شریک بنو گے، یا تمہیں تھوڑا بہت نفع دیں گے، یا تمہارا بھی نفع میں حصہ رکھا جائے گا۔ تو یہ مضاربت صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں نفع مجہول ہے، اور مضاربت تبھی درست ہوتی ہے جب نفع کی شرح مقرر ہو ۔۔۔
کاروباری شراکت اور مضاربت دونوں میں نفع کے معین اور مقرر ہونے کے متعلق ایک ہی حکم ہے۔" ختم شد
آپ نے سوال میں بتلایا کہ: " نفع 10 فیصد سے 50 فیصد تک بھی ہو سکتا ہے ۔" اگر یہ نفع مجموعی منافع میں سے ہے تو پھر نفع متعین کرنے کے لیے یہ نہ کافی ہے؛ کیونکہ نفع اب بھی مجہول ہے، اس لیے اس ویب سائٹ پر سرمایہ کاری کرنا حرام ہو گا۔ اور اگر یہ تناسب رأس المال کو دیکھ کر دیا جا رہا ہے تو پھر اس کی حرمت مزید واضح ہے؛ کیونکہ اس صورت میں سودی قرض کو تجارت کا نام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ حقیقی کاروباری شراکت نہیں ہے۔
واللہ اعلم