جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كام كا مالك اسے نماز ادا كرنے سے منع كرتا ہے

38106

تاریخ اشاعت : 21-07-2006

مشاہدات : 6290

سوال

ميرا مالك مجھے كام كے دوران چار نمازيں ادا كرنے سے منع كرتا ہے، ميرى ڈيوٹى ميں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء كى نمازيں آتى ہيں، ليكن مالك ادا كرنے نہيں ديتا، اس حالت ميں مجھے كيا كرنا ہو گا، كيا ڈيوٹى كے بعد ميں سارى نمازيں اكٹھى كر ادا كر لوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بغير كسى شرعى عذر كے نماز كى ادائيگى ميں تاخر كرنا كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ان نمازيوں كے ہلاكت ہے جو اپنى نمازوں ميں سستى كرتے ہيں الماعون ( 4 - 5 ).

سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا ساھون سے مراد نماز ترك كرنا ہے ؟

تو سعد رضى اللہ تعالى عنہ نےجواب ديا:

" نہيں، ليكن اسے وقت سے تاخير كر كے ادا كرنا ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

وہ لوگ جو اپنى نمازوں سے سستى برتتے ہيں .

اس سے نماز كے وقت سے نماز ميں تاخير كرنے والے مراد ہيں.

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 12/ 706 ).

كام كاج كوئى ايسا عذر نہيں جس كى بنا پر نماز ميں تاخير كرنى جائز ہو كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے.

اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:

ان گھروں ميں جن كے بلند كرنے اور جن ميں اپنے نام كى ياد كا اللہ تعالى نے حكم ديا ہے، وہاں صبح و شام اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتے ہيں، ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريد و فروخت اللہ كے ذكر سے اور نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائينگى، اس ارادے سے كہ اللہ تعالى انہيں ان كے اعمال كا بہترين بدلہ عطا فرمائے، بلكہ اپنے فضل سے كچھ اور زيادہ عطا فرمائے، اللہ تعالى جسے چاہے بغير حساب كے روزياں عطا فرماتا ہے النور ( 37 - 38 ).

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ مرد ہيں چاہے تجارت كريں اور خريد و فروخت ميں مشغول ہوں كيونكہ اس ميں كوئى ممانعت نہيں، ليكن انہيں يہ تجارت غافل نہيں كرتى كہ وہ اسے " اللہ تعالى كے ذكر اور نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے " پر ترجيح ديں، بلكہ انہوں نے اپنا مقصد اور غرض و غايت اور مراد اللہ تعالى كى اطاعت اور اس كى عبادت بنايا ہوا ہے، اس ليے جو چيز بھى اللہ تعالى كى اطاعت اور ان كے مابين حائل ہو وہ اسے دور پھينك ديتے اور ترك كر ديتے ہيں. اھـ بتصرف

اس بنا پر آپ كو چاہيے كہ يا تو آپ مالك سے مطالبہ كريں كہ وہ آپ كو كچھ وقت دے جس ميں آپ نماز بروقت ادا كريں، يا پھر آپ اس كام اور ملازمت كو ترك كر ديں جو آپ اور آپ كى نماز كے مابين حائل ہو رہا ہے، اور پھر جو كوئى بھى اللہ تعالى كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے عوض ميں اسے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز مہيا كرتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 34617 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب