اک لڑکی کو مدینہ طیبہ میں رہنے پر سکون نہیں ملا، تو وہ چھوڑ کر واپس آ گئی، تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے؟

سوال: 382031

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر کو ناپسند کرنا انسان کے گمراہ ہونے کا سبب بنتا ہے؟ میں مدینہ میں تھی لیکن وہاں رہنے میں مجھے اطمینان محسوس نہیں ہوا، اس لیے چھوڑ کر واپس آ گئی۔ لیکن اُس وقت میں گمراہی میں تھی، پھر مدینہ سے نکلنے کے بعد میں نے توبہ کر لی، کیا اس میں میرے اوپر کوئی گناہ ہے؟

جواب کا متن

اول:

مدینہ طیبہ میں رہائش کی فضیلت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر میں سکونت اختیار کرنا اور وہاں پیش آنے والی سختیوں پر صبر کرنا بہت بڑی فضیلت کا باعث ہے، اس کے لیے صحیح حدیث میں فضیلت ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم : (1363) میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں مدینہ کی دونوں پتھریلی زمینوں کے درمیان کے علاقے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں کہ یہاں کے کانٹے دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں اور نہ یہاں کے جانور شکار کیے جائیں۔ اور فرمایا: مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر وہ جان لیں۔ کوئی شخص مدینہ کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑے گا تو اللہ اس کی جگہ اس سے بہتر آدمی وہاں ضرور لے آئے گا، اور جو کوئی اس کی سختیوں اور مشکلات پر ثابت قدم رہے گا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارش کرنے والا یا گواہی دینے والا ہوں گا)۔

اسی طرح صحیح مسلم: (1381) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایسا زمانہ آئے گا جب کوئی شخص اپنے رشتہ دار کو بلا کر کہے گا: آؤ آسائش اور خوشحالی کی طرف، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا اگر وہ جانتے ہوئے تو ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کو ناپسند کرتے ہوئے کوئی بھی باہر نکلے تو اللہ تعالی اس کی جگہ وہاں کسی بہتر کو ضرور لے آئے گا۔ سن لو! مدینہ بھٹی کی طرح ہے، وہ میل کچیل باہر نکال پھینکتا ہے۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مدینہ اپنے اندر سے برے لوگوں کو ایسے ہی باہر نہ نکال دے جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل نکال دیتی ہے)۔

علماء نے اس حدیث میں مذکور "مدینہ برے لوگوں کو نکال دے گا" کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ یہ بعض اوقات میں خاص ہے ہر وقت کے لیے عام نہیں ہے۔

چنانچہ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ’’ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے لیے خاص تھی کیونکہ صرف مضبوط ایمان والے ہی وہاں ہجرت کر کے ٹھہر سکتے تھے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : یہ موقف مناسب نہیں لگ رہا؛ کیونکہ صحیح مسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مدینہ اپنے اندر سے برے لوگوں کو ایسے ہی باہر نہ نکال دے جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل نکال دیتی ہے ۔‘‘ اور یہ-واللہ اعلم - اس وقت ہو گا جب دجال ظہور پذیر ہو گا۔ ختم شد

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان دونوں پر موقفوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ دونوں اوقات مراد ہو سکتے ہیں کہ : ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور دوسرا آخر زمانے میں؛ کیونکہ دونوں کا سبب ایک ہی ہے۔ اس بات کی تائید اس دیہاتی کے واقعے سے بھی ہوتی ہے جو چند ابواب کے بعد آ رہا ہے؛ کیونکہ اس میں اس حدیث کا پس منظر ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا تھا جب ایک دیہاتی شخص نے بیعت ختم کرنے کی گزارش کی تھی اور وہ دیہاتی مدینہ سے جانا چاہتا تھا۔

یہی کیفیت آخری زمانے میں بھی پیدا ہو گی جس وقت دجال آئے گا اور پورا مدینہ شہر لرز اٹھے گا، اور مدینہ میں موجود کوئی بھی منافق اور کافر موجود ہوا تو وہ دجال سے جا ملے گا، جیسے کہ چند ابواب کے بعد یہ تفصیل آ رہی ہے۔ لیکن عہد نبوت اور دجال کے دور کے درمیان ایسا نہیں ہو گا۔ ‘‘ ختم شد
ماخوذ از: فتح الباری: (6/100)

دوم:

مدینہ طیبہ سے رہائش چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونے کا حکم

اگر کوئی باہر کا رہائشی ہو، کسی کام یا زیارت کی غرض سے مدینہ آئے اور پھر واپس لوٹ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اس حوالے سے علامہ الباجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ کہ حدیث میں جو آیا ہے ’’کوئی مدینہ کو ناپسند کرتے ہوئے نہ چھوڑے‘‘ اس کا مطلب ہے کہ جو وہاں رہنے کی فضیلت کو ناپسند کرے۔ لیکن جو کسی مجبوری، مشکل حالات یا آزمائش کی وجہ سے نکلے وہ اس وعید میں شامل نہیں۔
قاضی ابو ولید رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ : اس کا مطلب ہے جو مدینہ کو چھوڑ کر کسی اور شہر میں مستقل سکونت اختیار کرے۔ لیکن جو شخص باہر کا رہائشی ہے، عارضی طور پر آیا اور پھر اپنے وطن یا کسی اور جگہ واپس گیا تو وہ اس حکم میں شامل نہیں کہ وہ مدینہ شہر سے بے رغبتی کرتے ہوئے چھوڑ کر جا رہا ہے۔
اسی طرح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ ’’اللہ وہاں کسی اور بہتر کو لا کر آباد کرے گا‘‘ کا مطلب ہے کہ اللہ وہاں اس سے بہتر رہنے والے کو آباد کرے گا، اس کے لیے چاہے کوئی باہر سے آ کر بسنے والا ہو یا وہ بچہ جو مدینہ میں پیدا ہوا ہو۔‘‘ ختم شد

خلاصہ یہ ہے کہ اگر مدینہ طیبہ آپ کا اصل وطن نہیں، اور وہاں رہنے میں آپ کو سکون اور اطمینان نہیں ملا تو ان شاء اللہ آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ آپ اپنے وطن یا کسی اور جگہ واپس جا سکتی ہیں، آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

اصل اہمیت اس چیز کی ہے کہ بندہ اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کی رضا تلاش کرے، زمین یا علاقے کی فضیلت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

چنانچہ اسی حوالے سے امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’ آپ مبارک سر زمین آ جائیں‘‘۔ اس پر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’زمین کسی کو پاکیزہ نہیں بناتی ، بلکہ انسان کو اس کے اعمال ہی پاکیزہ بناتے ہیں‘‘۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android