سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ٹيلى ويژن اور ويڈيو صحيح كرنے كا حكم

40472

تاریخ اشاعت : 20-03-2011

مشاہدات : 8551

سوال

ميں ٹيلى ويژن اور ويڈيو صحيح كرتا ہوں، اور اسى طرح ڈشيں بھى نصب كرتا اور سارے چينل سيٹ كرتا ہوں، تو كيا يہ آلے استعمال كر كے گانے اور موسيقى سننے اور فلميں ديكھنے والوں كے گناہ ميں ميں بھى شريك ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المائدۃ ( 2 ).

اور آپ كا ٹيلى ويژن، ويڈيو، صحيح كرنا، اور ڈشيں لگانا، اور پھر ان كے مالكوں كا برائى اور منكرات كا مشاہدہ كرنے ميں معاونت ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى ھدايت كى طرف راہنمائى كرے اسے اس پر چلنے والے جتنا ہى اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، ان كے اجروثواب ميں كچھ كمى نہيں كى جاتى، اور جو كوئى بھى گمراہى اور ضلالت كى دعوت دے اسے اس كى پيروى كرنے والے جتنا ہى گناہ ہوتا ہے، ان كے گناہ ميں كچھ كمى نہيں كى جاتى "

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 2674 ).

لھذا آپ كے ليے يہ كام كرنا جائز نہيں، بہتر يہى ہے كہ آپ كوئى اور كام تلاش كريں، اور يہ ياد ركھيں كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے مہيا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا الطلاق ( 2 - 3 ).

مستقل فتوى كيمٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميں الكيٹرك انجينئر ہوں، ميرا كام ريڈيو، ٹيلى فون، اور ويڈيو وغيرہ صحيح كرنا ہے، مجھے فتوى ديں كہ آيا ميں يہ كام جارى ركھوں يا نہ؟

يہ علم ميں ركھيں كہ يہ كام چھوڑنے كى بنا پر مجھے بہت زيادہ نقصان ہو گا، اور ميرا سارا تجربہ جو ميں نے اپنى زندگى ميں سيكھا ہے وہ سب ضائع ہو جائے گا، اور اسے چھوڑنے ميں بہت ضرر بھى ہو گا ؟

كميٹى كا جواب تھا:

كتاب و سنت كے شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مسلمان شخص پر حلال اور پاكيزہ كمائى كرنے كى حرص ركھنا واجب اور ضرورى ہے، لھذا آپ كوئى ايسا كام تلاش كريں جس كى كمائى اچھى اور پاكيزہ ہو.

اور جو كام آپ نے ذكر كيا ہے اس كى كمائى كے متعلق گزارش ہے كہ يہ طيب و پاكيزہ نہيں؛ كيونكہ يہ اشياء غالبا حرام كاموں ميں ہى استعمال كى جاتى ہيں. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 420 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39744 ) كا جواب ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب