جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

دعا میں حد سے تجاوز

سوال

کچھ لوگ تفصیلات بیان کر کے دعائیں مانگتے ہیں، مثلاً: وہ کہتے ہیں: یا اللہ! مجھے رنگین ٹی وی عطا فرما، فرنشڈ مکان عطا فرما، فلاں چیز فلاں خوبیوں کی حامل عطا فرما، تو اس پر میں نے کہا: یہ کہیں دعا میں حد سے تجاوز نہ ہو۔ اس لیے اگر کوئی شخص مکہ شریف میں ہو اور دن بھی رمضان کے ہوں تو دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگتے ہوئے تفصیلات مت بیان کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ دعاؤں پر اکتفا کرے، میں آپ کی ویب سائٹ پر آئی تا کہ دعا میں حد سے تجاوز کے بارے میں پڑھ سکوں لیکن مجھے اس بارے میں کوئی تفصیلی جواب نظر نہیں آیا، تو میں چاہتی ہوں کہ آپ اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ جواب مہیا فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

محترمہ سائلہ بہن! اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے محبوب اور پسندیدہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ لوگ دعائیں نہیں کرتے حالانکہ دعا بہت بڑا ہتھیار ہے، اور دعا بھی عبادت ہے۔

جیسے کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دعا عبادت ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
 وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ 
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا: تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہارے لیے دعا قبول کروں گا؛ یقیناً جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں رسوا ہو کر داخل ہوں گے۔ [غافر: 60] البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیں صحیح سنن ترمذی: (2685)

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا: (اللہ تعالی کے ہاں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز معزز نہیں) اس حدیث کو البانی نے حسن قرار دیا ہے، صحیح سنن ترمذی: (2684)

ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے۔) البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیں صحیح سنن ترمذی: (2686)

لہذا جب آپ کو دعا کی فضیلت میں یہ احادیث معلوم ہو گئی ہیں تو آپ کثرت سے دعائیں مانگیں۔

دوم:
دعا کے آداب اور کچھ ممنوعہ چیزیں ہیں، انہیں اختصار کے ساتھ ہم درج ذیل سطور میں بیان کرتے ہیں:
1-اپنے لیے دعا سے آغاز کریں۔

2- دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔

3-دعا کرنے والا مکمل طہارت کی حالت میں ہو۔

4- دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ بیٹھیں۔

5- اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑا کر دعائیں کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً  یعنی: تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور آہستہ آواز میں پکارو۔ [الأعراف: 55] ابن قیم رحمہ اللہ اس حوالے سے لکھتے ہیں: دعا میں گڑگڑا کر دعا نہ کرنا بھی دعا کی حدود سے تجاوز ہے۔ دیکھیں: بدائع الفوائد (3 / 12 )

6- اللہ تعالی سے خوب اصرار کے ساتھ دعا مانگیں۔

7- دعا کی قبولیت کے لیے جلد بازی مت کریں، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلد بازی نہیں کرتا، اور کہتا ہے: میں نے دعائیں تو کی ہیں لیکن قبول ہی نہیں ہوتیں!)اس حدیث کو امام بخاری: (6340) اور مسلم : (2735) نے روایت کیا ہے۔

چنانچہ اگر مسلمان اللہ تعالی سے دعا مانگے تو تین میں سے ایک صورت میں ضرور قبول ہو گی، یہ تینوں صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں موجود ہیں کہ: (کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے دعا مانگے اور اس کی دعا میں گناہ اور قطع رحمی نہ ہو تو اللہ تعالی اسے تین میں سے ایک چیز ضرور دیتا ہے: یا تو اس کی دعا فوری قبول فرما لیتا ہے، یا پھر اسے آخرت کے لیے ذخیرہ فرما لیتا ہے، یا پھر اس کی طرف سے اتنی ہی برائی ٹال دیتا ہے۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے کہا: تب تو ہم بہت زیادہ دعائیں مانگیں گے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالی بھی زیادہ دے گا۔) اس حدیث کو امام احمد: (10749) اور ترمذی: (3573) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے مشکاۃ المصابیح :(2199) میں صحیح کہا ہے۔

8- دعا کرتے ہوئے خیال کرے کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھے، جیسے کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو دعا کرتے ہوئے سنا کہ اس نے دعا کی اور دعا میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہیں پڑھا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ پھر اسے بلایا اور اسی شخص کو یا کسی اور کو مخاطب کر کے کہا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اللہ تعالی کی حمد اور ثنا سے آغاز کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھے، اور پھر جو چاہے مانگے۔
البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیں: صحیح سنن ترمذی: (2765)

سوم:

دعا میں حد سے تجاوز متعدد صورتوں میں ہوتا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-دعا مانگتے ہوئے تفصیلات بیان کرنا، جیسے کہ سوال میں بھی ذکر ہےکہ: " یا اللہ! مجھے رنگین ٹی وی عطا فرما، فرنشڈ مکان عطا فرما، فلاں چیز فلاں خوبیوں کی حامل عطا فرما ۔" اس لیے دعا مختصر اور جامع الفا ظ میں کرنی چاہیے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا و آخرت کی بھلائی اللہ تعالی سے مانگتے تھے، جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہتے ہوئے سنا: "یا اللہ! میری دعا ہے کہ میں جب جنت میں داخل ہوں تو دائیں جانب سفید محل عطا فرما۔" تو انہوں نے کہا کہ: بیٹا! اللہ تعالی سے جنت مانگو اور جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرو؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: (میری امت میں ایسی قوم ہو گی جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کرے گی۔) اس حدیث کو ابو داود: (096) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح کہا ہے۔

2-ایسی چیز کی دعا کرے جو اللہ تعالی نے حرام کی ہیں، یا پھر ایسی چیز مانگے جو حرام کا ذریعہ ہو؛ کیونکہ وسائل کا حکم بھی وہی ہوتا ہے جو مقاصد کا ہو۔ جیسے کہ بدائع الفوائد ( 3 / 12 ) میں ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

اس لیے جو چیز کسی حرام کا م کا ذریعہ ہو تو وہ ذریعہ بھی حرام ہے۔

عام طور پر ٹیلی ویژن کو لوگ غلط چیزیں سننے اور دیکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اگر دعا مانگنے والے کا تعلق بھی اسی قسم کے لوگوں سے ہے تو اس کے یہ الفاظ بھی دعا میں حد سے تجاوز شمار ہوں گے؛ کیونکہ وہ اللہ تعالی سے گناہ کا ذریعہ بننے والی چیز کا سوال کر رہا ہے۔

چنانچہ اس مکمل تفصیل کے بعد واضح ہو گیا کہ سوال میں مذکور دعا ، دو اعتبار سے حد سے تجاوز پر مشتمل ہے:

پہلی وجہ: کہ دعا میں تفصیل بہت زیادہ ہے۔

دوسری وجہ: دعا میں حرام عمل کا ذریعہ بننے والی چیز کا مطالبہ ہے، اور وسائل کا حکم بھی مقاصد والا ہوتا ہے۔

دوسری صورت اس وقت ہو گی جب دعا میں ٹیلی ویژن طلب کرنے والا شخص اسے غلط استعمال کرے، اکثر و بیشتر لوگ ٹی وی کو غلط ہی استعمال کرتے ہیں۔

ماخذ: الاسلام سوال و جواب