اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عيسائى سرجن عيسائيت ترك كرنے كے بعد سوال كرتا ہے كہ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو دوران اپريشن نماز كيسے ادا كرے ؟

4426

تاریخ اشاعت : 23-05-2006

مشاہدات : 7008

سوال

ميں فى الحال غير مسلم ہوں ليكن دين اسلام كے متعلق ريسرچ كر رہا ہوں ميرا سوال ہے كہ نماز پنجگانہ كى ادائيگى اور شخص كى زندگى پر اس كا اثر كيا ہے، مجھے علم ہے كہ نماز ادا كرنے كے ليے چند منٹ دركار ہوتے ہيں جو كہ ہر شخص پر وقت مقررہ كے اندر ادا كرنى فرض ہے.
ميں بطور سرجن كام كرتا ہوں جب كوئى شخص سرجن ہو تو اسے اپنے كام ميں مكمل دھيان ركھنا پڑتا ہے كيونكہ اس كے سامنے دوسروں كى زندگى كا مسئلہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو اپريش كے ليے دو نمازوں سے بھى زيادہ وقت دركار ہوتا ہے، چنانچہ اس حالت ميں كيا كرنا چاہيے ؟
مجھے تو معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كے مطلوبہ اوامر اور ملازمت ڈيوٹى يہ دونوں متفق نہيں بلكہ اس ميں تعارض ہے، ميں نہيں جانتا كہ مخلص قسم كے مسلمان اور علماء دين اس سوچ اور فكر كے متعلق كيا كہتے ہيں، اور اسلامى زندگى اور عملى زندگى كے درميان موافقت كيسے ممكن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جواب دينے سے قبل ايك بات كہنا ضرورى محسوس كرتے ہيں، ہم سائل كى قدر كرتے ہيں كہ آپ دين اسلام كے متعلق ريسرچ كر رہے ہيں، اور حق جاننے كا اہتمام بھى كرتے ہيں، اور اس پر بھى آپ كى قدر كرتے ہيں كہ آپ نے صحيح دين كى تلاش كے ليے باطل دين نصرانيت كو ترك كيا ہے، يہ موقف بہت ہى اچھا ہے جو اس بات كى دليل ہے كہ آپ اندھى تقليد اور خاندانى عادات سے عارى ہيں، اور جن عادات و رسم رواج پر آپ كى پرورش ہوئى اس سے بيزارى كا اظہار كر رہے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى باطل كى تقليد كرنے والوں كى خبر ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

اور جب انہيں كہا جاتا ہے كہ جو كچھ اللہ تعالى نے نازل كيا ہے اس كى پيروى اور اتباع كرو، تو وہ جواب ديتے ہيں بلكہ ہم تو اس كى پيروى كرينگے جس پر ہمارے باپ دادا تھے، چاہے ان كے اباء واجداد كچھ بھى عقل نہ ركھتے ہوں اور نہ وہ ہدايت پر ہوں البقرۃ ( 170 ).

اللہ سبحانہ وتعالى نے نصارى ميں سے ان لوگوں كى تعريف و توصيف كى جنہوں نے دين اسلام كو پہچانا اور جو وحى اللہ تعالى نے اپنے نبى پر كى اسے سنا تو حق كى پيروى كرتے ہوئے اس كے مطيع ہو گئے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب وہ چيز سنتے ہيں جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوئى ہے تو آپ ديكھتے ہيں كہ انہوں نے جو حق پہچانا ہے اس كى وجہ سے ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہو جاتے ہيں، وہ كہنے لگتے ہيں اے ہمارے رب ہم ايمان لے آئے ہميں تصديق كرنے والوں كے ساتھ لكھ دے، اور ہم اللہ تعالى اور ہمارے پاس جو حق آيا ہے اس پر ايمان كيوں نہ لائيں، ہم چاہتے اور خواہش ركھتے ہيں كہ ہمارا رب ہميں صالح اور نيك لوگوں كے ساتھ جنت ميں داخل كر دے المآئدۃ ( 83 - 84 ).

ہمارے ليے اس بنا پر بھى آپ كا شكريہ ادا كرنا ضرورى ہے كہ آپ نماز كى اہميت اور بروقت نماز ادا كرنے كے وجوب كو سمجھتے ہيں، ہم ايك حقيقت جو دين اسلام ميں بہت اہميت ركھتى ہے ضرور پيش كرنا چاہتے ہيں وہ يہ كہ وہ ذات جس نے دين اسلام نازل كيا اور اسلام كے احكام اور قوانين مشروع كيے اور اپنے بندوں كے ليے اس پر راضى ہوا وہ اللہ عزوجل كى ذات ہے جس زمين و آسمان ميں كوئى بھى چيز پوشيدہ اور مخفى نہيں، وہ علام الغيوب ہے، جو ہو چكا اسے بھى جانتا ہے، اور جو كچھ ہونے والا ہے اس كا بھى علم ركھتا ہے، اور آسمان و زمين پيدا كرنے سے قبل ہى اس كے علم ميں تھا كہ ايك وقت ايسا آئيگا كہ طب كے شعبہ ميں ترقى ہو گى، اور ڈاكٹر بہت بڑے بڑے اپريشن كرينگے، مثلا دل كى اپريشن، اور اعضاء كى پيوندكارى مثلا جگر اور گردے وغيرہ، اور سرطان كا آپريشن، اور اسى طرح ايكسيڈنٹ ميں زخمى افراد كے اپريشن وغيرہ.

اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے ايسى شريعت نازل فرمائى جو ہر وقت اور دور اور ہر جگہ اور ملك كے مطابق ہو، علمى ترقى اور دوسرے كام كاج كے مخالف نہيں، تفصيلى جواب دينے سے قبل ہم ذيل ميں آپ كو پيش آنے والے اشكالات پر كچھ ملاحظات درج كرتے ہيں:

ـ اس طرح كے اپريشن ميں عام طور پر دو مين سرجنوں كے ساتھ دو معاون سرجن ہوتے ہيں تا كہ ضرورت پيش آنے پر بارى بارى كام ہو سكے.

ـ بعض آپريشنوں ميں مختلف اسپيشلسٹ ڈاكٹر شريك ہوتے ہيں جو اپنے تخصص كے مطابق كام سرانجام ديتے ہيں، ہميشہ يہ نہيں ہوتا كہ لمبے اور بڑے اپريشن ميں ايك ہى ڈاكٹر شروع سے ليكر آخر تك كام كرے، چنانچہ ايك ڈاكٹر چيرپھاڑ كرتا ہے، اور دوسرا دل كا ڈاكٹر ہے،اور تيسرا خون كى شريانوں كا اسپيشلسٹ، پھر آخر ميں زخم سينے كے ليے پہلا ڈاكٹر آتا ہے، اور بعض اپريشنوں ميں كسى اسپيشلسٹ ڈاكٹر كا سارے اپريشن كا نصف وقت بھى نہيں گزرتا.

جن اپريشنوں ميں بہت زيادہ وقت مثلا دس گھنٹے يا اس سے بھى زيادہ يہ اپريشن نادر يا پھر بہت ہى كم تعداد ميں ہوتے ہيں، زيادہ نہيں.

اپريشن كرنے والے ڈاكٹر كى نماز كے متعلق تفصيلى جواب درج ذيل ہے:

1 - اصل تو يہى ہے كہ ہر نماز اس كے وقت ميں ہى ادا كى جائے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا نماز مومنوں پر وقت مقررہ ميں ادا كرنا فرض كى گئى ہے .

2 - اگر اپريشن لمبا ہو تو ڈاكٹر كو كوشش كرنى چاہيے كہ اپريشن پہلى نماز كے اول وقت ميں نماز كے بعد شروع كرے تاكہ دوسرى نماز كا وقت ختم ہونے سے قبل تك مكمل ہو تا كہ ہر نماز اس كے وقت ميں ادا كر جا سكے.

3 - جس قدر ہو سكے اپريشن كى جدول اور ٹيبل اس طرح بنايا جائے كہ دو نمازوں كا وقت اكٹھا نہ آئے، مثلا لمبا اپريشن صبح جلدى شروع كر ليا جائے اور عصر كى نماز تك جارى رہے اس طرح كہ ظہر كى نماز اس كے وقت ميں ادا كرے، اس طرح اس كے پاس مسلسل كام كے ليے چھ گھنٹے ہونگے، مثلا اگر وہ صبح آٹھ بجے اپريشن شروع كرے اور ظہر كے بعد دو بجے ختم ہو اگر چاہے تو اس كے پاس مسلسل كام كرنے كے ليے چھ گھنٹے ہونگے.

4 - اگر دروان اپريشن بروقت نماز كے ليے جانا ممكن ہو تو اس كى غير حاضرى ميں پينل كا كوئى دوسرا ڈاكٹر كام مكمل كرلے اور پھر وہ آپس ميں بارى كا تبادلہ كر ليں، تو انہيں ايسا كرنا چاہيے.

ہم پوچھتے ہيں كہ دوران اپريشن اگر كسى ڈاكٹر كو قضائے حاجت كى ضرورت پيش آجائے تو كيا كرے گا ؟

اپريشن كى ترتيبات اس كا خيال ركھنے كا اشارہ كرتى ہيں، بلكہ ہميں پتہ چلا ہے كہ لمبے اپريشن كے دوران تو بعض ڈاكٹر كچھ آرام بھى كرتے ہيں يا پھر اپريشن كے وقت كچھ كھاتے ہيں، اور اس كى جگہ كوئى اور ڈاكٹر كام كرتا ہے، چنانچہ نماز كا خيال اور اہتمام تو بدرجہ اولى ہونا چاہيے.

5 - اگر مندرجہ بالا كام ممكن نہ ہوں تو ضرورت كے پيش نظر دو نمازيں جمع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا ظہر اور عصر كى نماز جمع تاخير كر كے عصر كے وقت ميں ادا كى لى جائے.

6 - بہت ہى نادر حالات ميں اگر اپريشن زيادہ لمبا ہو جائے حتى كہ دونوں نمازوں كے وقت سے بھى تجاوز كر جائے مثلا ظہر سے قبل شروع ہو اور مغرب كے بعد ختم، اور نماز كے ليے نكلنا ممكن نہ ہو تو پھر ڈاكٹر حسب حال نماز ادا كر لے.

جى ہاں وہ دوران اپريشن ہى نماز ادا كرے گا نماز كے تكبير كہہ كر سورۃ فاتحہ اور كوئى سورت پڑھ اور جتنا ممكن ہو سكے ركوع اور سجدہ ميں اشارہ كرے، سجدہ ركوع سے نيچا ہونا چاہيے جس طرح ميدان جھاد ميں دشمن كے مقابلے لمبے معركہ ميں لڑنے والے كى ہوتى ہے، يا پھر دشمن كو پيچھے دھكيلنے يا دشمن سے بھاگنے كى حالت ميں وہ اپنى حالت كے مطابق نماز ادا كرے گا، كيونكہ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، اللہ تعالى كا شكر ہے جس نے دين ميں ہم پر كوئى تنگى اور حرج نہيں ركھا.

ان احكام كے دلائل ثابت اور موجود ہيں، اور اس ميں اور اس كے حالات ميں علماء كرام كے اقوال معروف اور كتب فقہ ميں مندرج ہيں، جو مبارك شريعت اسلاميہ كى نرمى اور جديد و قديم انسانى معاشرے كى ترقى اپنے اندر سموئے ہونے كى واضح دليل ہے، يہ كوئى اچھنبے اور تعجب كى بات نہيں كيا يہ شريعت عليم و خبير اور حكيم و حميد كى جانب سے نازل كردہ نہيں.

آخر ميں ہم عقلمند سائل كو دعوت ديتے ہيں كہ آپ جلدازجلد دين اسلام قبول كر كے دين كى سعادت كو حاصل كرليں، كيونكہ دين اسلام كى پيروى كرنے والے كے ليے دين اسلام دنيا و آخرت ميں سعادت مندى كا ضامن ہے، اور ہر قسم كى مشكلات كا حل پيش كرتا ہے، ہم ہر قسم كى وضاحت كرنے كے ليے مكمل تيار ہيں.

اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد