الحمد للہ.
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ كھانے پينے كى اشياء پيش كرنے كے ليے وہ كنٹين كرايہ پر حاصل كرنا جائز نہيں، كيونكہ حقہ اور سگرٹ نوشى حرام ہے، اس ليے يہ كہ اس ميں مال كا ضياع اور مسلمان شخص كا اپنے آپ كو نقصان اور ضرر دينا، اور پھر اس گندے دھويں كو سونگھنے والے دوسرے مسلمانوں كے ليے بھى نقصان دہ ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 10922 ) اور ( 7432 ) كے جوابات ضرور ديكھيں.
اصل اور حقيقت تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كو ان معصيت و نافرمانى والى جگہ كو ترك كرنا اور اس كے قريب بھى نہيں جانا چاہيے، نہ كہ وہ ان كى مدد ميں حصہ ڈالے يا پھر وہ انہيں وہاں ايسى اشياء پيش اور فروخت كرے مثلا حلال كھانا پينا وغيرہ يا وہاں كينٹين كھولى جائے تا كہ ان گنہگار اور نافرماں لوگوں كو كھانا پينا فراہم كرے جو ان كے ليے اس جگہ رہنے كا سبب اور باعث بنے، يہ ايك ايسا كام ہے جو مسلمان كے واجبات كے منافى ہے كيونكہ مسلمان شخص كے ليے برائى روكنى واجب ہے، اور جہاں برائى ہو رہى ہو اس جگہ كو بھى مسلمان شخص كے ليے ترك كرنا واجب اور ضرورى ہے لھذا يہ كنٹين كھولنا اس امر كے منافى ہو گا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى تم پر اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل فرما چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر اور ان كا مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ مت بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ورنہ تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو بلا شبہ اوراللہ تعالى تمام كافروں اور منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).
قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فرمان بارى تعالى: تم اس وقت ان كے ساتھ نہ بيٹھو حتى كہ وہ اس كے علاوہ دوسرى باتوں ميں مشغول ہو جائيں يعنى كفر كے علاوہ
بلا شبہ تم ان جيسے ہى ہو: يہ آيت نافرمان و گنہگار اور معصيت كرنے والے لوگوں سے جب برائى اور گناہ ظاہر ہو تو ان سے اجتناب كرنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہے؛ كيونكہ جو شخص ان سے اجتناب نہيں كرتا اور ان كے ساتھ بيٹھتا ہے تو وہ ان كى اس معصيت و نافرمان پر راضى ہے.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 5 / 418 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ہر ايك شخص پر برائى كا دل سے انكار كرنا واجب ہے، جو كہ برائى اور منكر سے ناپسنديدگى اور اس سے بغض ركھنا اور ہاتھ اور زبان سے برائى روكنے سے عاجز ہونے كى صورت ميں معصيت كرنے والوں سے كو چھوڑ دينا ہے.
ديكھيں: الدرر السنيۃ فى الاجوبۃ النجديۃ ( 16 / 142 ).
بلكہ جائداد كے مالك پر واجب ہے كہ وہ اپنى جائداد اور مكان ان لوگوں كو كرايہ پر نہ دے جو اسے معصيت و گناہ اور نافرمانى كرنے كا اڈا بنائيں.
شيخ عبدالعزيز آل شيخ سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ميرے والد نے اپنى ملكيتى عمارت كے كرايہ كا تيسرا حصہ وصيت كردى، اس عمارت كى دوكانوں ميں بعض دوكانيں سگرٹ، اور حقہ وغيرہ لوازمات، اور بعض دوكانيں گانے كى كيسٹيں فروخت كرنے پر مشتمل ہيں، تو كيا يہ وصيت جائز ہے كہ نہيں؟
يہ علم ميں ركھيں كہ اس كے علاوہ ہمارى ملكيت ميں كچھ نہيں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
جواب:
آپ كو چاہيے كہ آپ ان لوگوں كو نكال ديں؛ كيونكہ سگرٹ اور تمباكو اور حقہ اور گانے وغيرہ يہ سب امور حرام اور شريعت اسلاميۃ كے مخالف ہيں، اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى پر كسى كا تعاون كرنا حلال نہيں، ان شاء اللہ تعالى اللہ رب العالمين آپ كو اس كے عوض ميں بہتر عطا فرمائے گا، اور ان شاء اللہ يہ دوكانيں اتنے كرايہ پر چڑھيں گى كہ آپ كو بھى اور ميت كو بھى اس كا فائدہ ہو گا. اھـ
اور آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے، اور روز اللہ تعالى كے معصيت و نافرمانى كرنے سے حاصل نہيں ہوتى، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:
اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى ايسى جگہ سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
واللہ اعلم .