اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

اسماء حسنى كے ساتھ علاج كرنا

45559

تاریخ اشاعت : 05-12-2012

مشاہدات : 9241

سوال

كيا اللہ تعالى كے اسماء حسنى كے ساتھ علاج كرنا جائز ہے؟ مثلا مريض كى آنكھ ميں يہ "يا بصير" پڑھا جائے يا اس طرح كوئى اور اسم ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

لوگوں ميں اللہ تعالى كے اسماء حسنى كے ساتھ علاج معالجہ كرنا عام ہو چكا ہے اور كچھ ايسے اوراق بھى تقسيم ہو رہے ہيں جن ميں اسماء حسنى ميں سے بعض نام اور اس كے سامنے اس مرض كا نام بھى لكھا ہوا ہے جس كا علاج كرنا مقصود ہو.

اور اس طريقہ سے علاج كرنے كى ايجاد كا گمان ركھنے والے شخص كا نام ڈاكٹر ابراہيم كريم ہے اور يہ ايك نيا علم بايوجوميٹرى كے نام سے جانا جانے لگا ہے، اس علاج كے موجد كا خيال ہے كہ اللہ تعالى كے ناموں كو بہت سے ضخيم امراض سے شفائى طاقت حاصل ہے، اور انسان كے جسم كے اندر كى طاقت كے قياس ميں مختلف قسم كے دقيق قسم كے قياساتى اسلوب كے واسطہ سے اس نے يہ ايجاد كيا ہے كہ اللہ تعالى كے اسماء حسنى ميں سے ہر اسم كو ايك ايسى طاقت حاصل ہے جو امراض سے بچانے والى قوت كو تيار كرتى ہے تا كہ انسان كے كسى معين عضو ميں كفايت عظمى كا عمل ہو سكے، اور اس كا يہ بھى گمان ہے كہ قانون رنين كى تطبيق كے واسطہ سے اس نے صرف اسماء حسنى كا ذكر كرنے سے ہى انسان كے جسم ميں قوت حيوى كو بہتر بنايا جا سكتا ہے.

اور مسلسل تين برس كى ريسرچ كرنے سے اس نے يہ جدول لوگوں كے امراض كے ليے ايجاد كى ہے جس ميں اسماء حسنى اور جس مرض ميں يہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہيں كو جدول بنا كر ظاہر كيا ہے.

اس كي مثال يہ ہے:

" السميع " طاقت كے توازن كے ليے، " الرزاق " معدہ كے علاج كے ليے، " الجبار " ريڑھ كى ہڈى كے علاج كے ليے، " الرؤف " قولنج كى بيمارى كے ليے، " النافع " سے ہڈيوں كا علاج كيا جاتا ہے، الحيى، گردے كے علاج كے ليے، " البديع" بالوں كے علاج كے ليے، " جل جلالہ" بالوں كے ليے، " النور " البصير" الوھاب" آنكھوں كے علاج كے ليے...

علاج كا طريقہ يہ ہے كہ: مناسب عضو پر اسم كو بار بار پڑھا جائے يا پھر كئى ايك نام دس منٹ تك پڑھے جائيں.

اس كا خيال ہے كہ اسمائے حسنى كے بعد شفا والى آيات كى تلاوت سے شفا يابى ميں اضافہ ہوتا ہے اور وہ آيات يہ ہيں:

ويشف صدور قوم مؤمنين

اور مومنوں كےسينوں كو شفا دينےوالا

وشفاء لما في الصدور

اور جو كچھ سينوں ميں ہے اس سے شفا دينے والا

فيه شفاء للناس

اس ميں لوگوں كے ليے شفا ہے

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة

اور ہم قرآن نازل كرتے ہيں جو شفا اور رحمت ہے

وإذا مرضت فهو يشفين

اور جب ميں بيمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفايابى ديتا ہے

قل هو للذين آمنوا هدى وشفاء

كہہ ديجئے يہ ايمان والوں كے ليے شفا اور ہدايت ہے.

اس سب كا رد يہ ہے كہ:

1 - علاج يا تو حسى اسباب سے ہوتا ہے يا پھر شرعى اسباب سے، لھذا جو حسى اور مادى اسباب سے علاج ہوتا ہے اس كا منبع اور مرجع تجربہ ہے، اور جو علاج شرعى اسباب كے ساتھ ہوتا ہے اس كا مرجع شرعيت ہے كہ كس كے ساتھ علاج كيا جائے اور اس كي كيفيت كيا ہے، اور اللہ تعالى كے اسماء حسنى كا ذكر شرعى امور ميں سے ہے، اور تحقيق كرنے والے اس شخص نے ان اسماء كى تعيين كى كوئى شرعى دليل نہيں دى اور نہ ہى علاج كى اس كيفيت اور جس كا علاج كيا جا رہا ہے اس كى كوئى شرعى دليل بيان كى ہے، لھذا اس كا شرعى سبب سے علاج ہونا باطل ہوا، اور اس طريقہ سے شرعى دلائل كا تجربہ اور اس كا آزمانا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اپنے علم ميں ركھيں كہ دواء شفا كے ليے سبب ہے اور مسبب اللہ تعالى ہے لھذا كوئى ايسى چيز سبب نہيں بن سكتى جسے اللہ تعالى سبب نہ بنائے اور وہ اشياء جنہيں اللہ تعالى نے سبب بنايا ہے اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

شرعى اسباب: جس طرح كہ قرآن مجيد، اور دعاء ہے.

جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورۃ الفاتحۃ كے متعلق فرمايا:

" تجھے كيا علم كہ يہ دم ہے"

اور جس طرح كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مريضوں كے ليے دعا فرمايا كرتے تھے تو اللہ تعالى ان كى دعا كى بنا پر مريضوں كو جسے چاہتا شفايابى نصيب فرماتا.

دوسرى قسم:

حسى اسباب: مثلا شرعى طريقہ پر مادى اور معلوم ادويات، جيسا كہ: شہدہے، يا پھر تجربہ كى بنا پر مثلا بہت سى ادويات، اور اس كى قسم كى تاثير بلاواسطہ اور مباشر ہونا ضرورى ہے نہ كہ وہم اورخيالى طور پر، لہذا جب محسوس اور صحيح طريقہ سے اس كى تاثير ثابت ہو جائے تو اسے بطور دوا استعمال كيا جاسكتا ہے تا كہ اللہ تعالى كے حكم سے اس دوائى سے شفا حاصل ہو، ليكن اگر صرف وہم اور خيالات ہى ہوں كہ مريض كو خيال آئے اور اسے اس وہم كي بنا پر نفسياتى راحت نصيب ہو اور اس وجہ سے مرض ميں كمى ہو اور ہو سكتا ہے كہ مريض كو خوشى اورسرور ملے جس وجہ سے مرض زائل ہو جائے تويہ ايسى چيز ہے كہ اس پر اعتماد نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى اس سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ يہ دوائى ہے تاكہ انسان واہموں اور خيالات كے پيچھے نہ بھاگتا پھرے، اور اسى بنا پر بيمارى دور كرنے يا ختم كرنے كے ليے دھاگہ اور لوہے كا كڑا وغيرہ پہننا منع كيا گيا ہے، كيونكہ نہ تو يہ شرعى سبب ہے اور نہ ہى حسى .

اور جس چيز كا شرعى يا حسى سبب ہونا ثابت نہيں اسے سبب بنانا بھى جائز نہيں ہے، كيونكہ اسے سبب بنانا اللہ تعالى كے ملك اور بادشاہى ميں اس كے ساتھ منازعت اور اس كے ساتھ شرك ہے كيونكہ اللہ تعالى نے ہى اسباب اور اس كے مسبب بنائے ہيں، اور شيخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ تعالى نے اس مسئلہ كے متعلق كتاب التوحيد ميں باب باندھتے ہوئے كہا ہے: " مصيبت كو دور يا ختم كرنے كے ليے كڑا چھلہ اور دھاگہ وغيرہ پہننا شرك ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 1 / سوال نمبر 49 ).

2 - اس نے كچھ ايسے اسم بھى ذكر كيے ہيں جن كے متعلق اس كاگمان ہے كہ اللہ تعالى نے ان ناموں سے اپنے آپ كو موسوم كيا ہے، حالانكہ معاملہ ايسا نہيں مثلا " جل جلالہ " اور " الرشيد " اور " البديع " اور " النافع " وغيرہ، جو كہ اس دعويدار كى جہالت كي دليل ہے ، اور اس مزعوم طاقت كے باطل ہونے كى بھى دليل ہے، جبكہ يہ - اس كے گمان كے مطابق - طاقت اللہ تعالى كےاسماء كے علاوہ ان اسماء سے پيدا شدہ ہيں جو صحيح دلائل سے ثابت نہيں.

3 - علاج كى كيفيت كي تعيين اور ہر بيمارى كے ليے اسم كي تحديد.

اور جو صحيح ہے كہ يہ اللہ تعالى كے ناموں ميں سے ہے يہ ايسى بات ہے جو اللہ پر ايسى بات ہے جو بغير علم كے كہى گئى ہے اور اللہ تعالى نے بغير علم كے بات كرنى حرام قرار دى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

كہہ ديجئے كہ البتہ ميرے رب نے صرف ان تمام فحش باتوں كو حرام كيا ہے جو اعلانيہ ہوں اور جوپوشيدہ ہيں اور ہر گناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالى كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كي اللہ تعالى نے كو ئى سند نازل نہيں كى اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ تعالى كے ذمہ ايسى بات لگاؤ جس كو تم نہيں جانتے الاعراف ( 33 ).

اس آيت كي تفسير ميں شيخ سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ تعالى كے ذمہ ايسى بات لگاؤ جس كو تم نہيں جانتے:

اس كے اسماء وصفات اور اس كے افعال اور شريعت ميں. ديكھيں تفسير سعدى صفحہ نمبر ( 250 ) .

4 - مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے جب اس شخص كے متعلق اور اس مسئلہ كے بارہ ميں سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

علمى ريسرچ اور فتوى كميٹى نے بحث و تمحيث كے بعد يہ جواب ديا:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور اچھے اچھے نام اللہ تعالى ہى كے ہيں لھذا اللہ تعالى كو انہيں ناموں سے موسوم كيا كرو اور ايسے لوگوں سے تعلق بھى نہ ركھو جو اس كے ناموں ميں كج روى كرتے ہيں ان لوگوں كو اپنے كيے كى سزا ضرور ملے گى الاعراف ( 180 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلاشبہ اللہ تعالى كے ننانوے نام ہيں جس نے بھى ان ناموں كو شمار كيا وہ جنت ميں داخل ہو گا"

اور ان اسماء ميں اسم اعظم بھى ہے جس كے ساتھ اللہ تعالى سے دعا كى جائے تو دعا قبول ہوتى ہے، اور جب سوال كيا جائے تو ديا جاتا ہے، لھذا اللہ تعالى كے اسماء كى تعداد كا علم اللہ تعالى كے علاوہ كسى كو بھى نہيں اور الہ تعالى كے سب نام ہى حسنى ہيں، ان اسماء كو ثابت كرنا واجب اور ضرورى ہے اور اللہ تعالى كے كمال اور جلال اور عظمت پر جويہ اسماء دلالت كرتے ہيں اسے بھى ثابت كرنا ضرورى اور واجب ہے، اور ان اسماء كى نفى كركے يا اس ميں سے كسى بھى چيز كى نفى كركے يا جس كمال پر يہ اسماء دلالت كرتے ہيں اس كى نفى كركے يا پھر اللہ تعالى كى صفات جس كو متضمن ہے اس كي نفى كر كے الحاد اور كجى كرنا حرام ہے.

اور اس مدعى نے اللہ تعالى كے اسماء ميں " كريم اور سيد " جو زعم اور گمان كيا ہے وہ بھى الحاد ہے اور اس كے شاگرد اور بيٹا جو ورقہ لوگوں كے اندر تقسيم كر رہے ہيں جس ميں ہے كہ اللہ تعالى كے اسماء كو كئى ايك بڑے امراض سے شفائى طاقت حاصل ہے يہ سب الحاد ہے، اور يہ كہ يہ طاقت دقيق مختلف قياسى اسلوب كے ساتھ انسان كے جسم ميں طاقت كے قياس كے ساتھ ايجاد ہوئى ہے كہ اسماء حسنى ميں سے ہر اسم كو ايك ايسى طاقت حاصل ہے جو امراض سے بچاؤ كى طاقت پيدا كرنے كا عمل كرتے اور اسے انسان كے جسم كے كسى معين عضو ميں پيدا كرتے ہيں اور ڈاكٹر ابراہيم نے قانون رنين كے ذريعہ يہ انكشاف كيا ہے كہ صرف اسماء حسنى كا ذكر ہى انسان كے جسم ميں حيوى طاقت كو درست كرديتا ہے.

اور اس كا كہنا ہے كہ: يہ معروف ہے كہ انسان كے جسم كي طاقت حيوى كو بندول فرعونى كے ذريعہ وضع كرنے والے سب سے پہلے فراعنہ ہى تھے، پھر اس نے كچھ اسماء حسنى كو ايك جدول ميں ذكر كيا ہے اس كا گمان ہے كہ اس ميں سے ہر اسم كا جسم كو فائدہ ہوتا ہے يا پھر جسمانى امراض كي ايك قسم كا علاج ہے، اور اس كے ليے اس نے انسانى جسم كا خاكہ بھى تيار كر كے ہر عضو پر اسماء حسنى ميں سے ايك اسم بھى ركھا ہے.

جو كہ ايك باطل عمل ہے كيونكہ يہ اللہ تعالى كےاسماء ميں الحاد اور كجى ہے اور اس ميں اس كى تحقير ہے؛ كيونكہ مشروع تو يہ ہے كہ اللہ تعالى كے اسماء كے ساتھ دعا كى جائے جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

لہذا انہيں ناموں كے ساتھ اللہ تعالى سے دعا كرو. اور اسى طرح ان صفات كو بھى ثابت كرنا ضرورى ہے جو ان اسماء كے ضمن ميں ہيں ؛ كيونكہ ہر اسم اللہ جل جلالہ كى صفت كو متضمن ہے: لھذا ان اسماء كو بغير كسى شرعى دليل كے دعاء كے علاوہ كسى بھى چيز ميں استعمال نہيں كيا جاسكتا .

اور جو كوئي يہ گمان كرے كہ يہ اسماء اس اس طرح كا فائدہ ديتے ہيں اور اس كے پاس كوئي شرعى دليل بھى نہ ہو تو يہ ايسا قول ہے جو اللہ تعالى كے ذمہ بغير علم كے لگايا جارہا ہے، حالانكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے كہ البتہ ميرے رب نے صرف ان تمام فحش باتوں كو حرام كيا ہے جو اعلانيہ ہوں اور جوپوشيدہ ہيں اور ہر گناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالى كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كي اللہ تعالى نے كو ئى سند نازل نہيں كى اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ تعالى كے ذمہ ايسى بات لگاؤ جس كو تم نہيں جانتے

لہذا اس ورقے كو ضائع كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور اسى طرح ان دونوں اشخاص اور ان كے علاوہ دوسروں پر بھى اس عمل سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرنى واجب ہے اور عقيدہ اور احكام شريعيت كے متعلق جو كچھ بھى اس طرح كا بغير كسى دليل كے كام ہو اسے دوبارہ نہ كريں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب