جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

ذمہ دارى اٹھائى تو پريشانى اور غم نے آ گھيرا

45847

تاریخ اشاعت : 29-04-2013

مشاہدات : 8323

سوال

ميں بيس برس كا نوجوان ہوں اور ميڈيكل كالج ميں تعليم حاصل كر رہا ہوں، كچھ برس قبل والد صاحب فوت ہو گئے اور اكثر ذمہ دارياں ميرے كندھوں پر آپڑيں، آپ كو علم ہونا چاہئے كہ ميرا ايك بڑا بھائى بھى ہے ليكن وہ معذور اور عاجز ہے، كچھ ايام قبل ميرى نفسياتى حالت پريشانى ميں بدل گئى اور مجھے ہر وقت موت اور بيمارى كا خدشہ رہنے لگا، اور بعض اوقات ايسى حالت ہو جاتى كہ مجھے عنقريب موت آ جائے گى اور اس طرح كے دوسرے عجيب وغريب افكار اور سوچيں گھيرے ركھتيں تھيں ميں نفسياتى ڈاكٹر كے پاس گيا تو اس نے مجھے كہا كہ: مجھے پريشانى اور غم جيسى مشكلات كا سامنا ہے اور مجھے دوائى بھى دى ليكن ميں نے يہ دوائى استعمال نہيں كى.
الحدللہ ميں نے اسلامى احكام پر عمل كرنا شروع كرديا اور اللہ عزوجل كى جانب رجوع كيا اور اس كے سامنے گڑ گڑايا، الحد للہ قرآن مجيد كي تلاوت اور مسجد ميں نماز كى ادائيگى سے اب ميرى حالت پہلے سے بہتر ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ كيا ميرى حالت اس كي متقاضى ہے كہ ميں دوائى استعمال كروں يا نہ ؟
اور كيا يہ شيطان كى جانب سے ہے يا ايك عضوى مرض ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مومن شخص اپنے رب سے بے پرواہ نہيں ہو سكتا، كيونكہ اللہ عزوجل ہى نفع دينے اور نقصان سے بچانے والا ہے لہذا آپ كا اللہ عزوجل كى طرف التجا كرنا اور اس كى جانب رجوع كرنا ايك صحيح اور بہتر عمل ہے.

يہ ياد ركھيں كہ موت ايك حقيقت ہے اور يہ حق ہے اللہ عزوجل نے ہر نفس كے ليے موت لكھ ركھى ہے كہ وہ ايك نہ ايك دن اس دنيا فانى كو چھوڑ كر مر جائے گا، فرمان بارى تعالى ہے:

ہر نفس نے موت كا ذائقہ چكھنا ہے آل عمران ( 185 ) .

انسان جتنے بھى اسباب مہيا كرلے وہ پھر بھى اللہ تعالى كى تقدير اور اس كى موت كا فيصلہ ٹال نہيں سكتا.

خوف كے لائق نہيں كہ وہ بندے كو اطاعت و فرمانبردارى سے روك دے بلكہ اس كا برعكس ہى صحيح اور درست ہے، لھذا خوف اور ڈر ہى اسے اطاعت و فرمانبردارى كى جانب چلاتا اور اسے عبادت پر ابھارتا ہے، اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كے قول كے مطابق خوف ہى اللہ تعالى كا كوڑا ہے جو اس كے بندوں كو علم اور عمل پر مواظبت اور ہميشگى كرنے كى طرف چلاتا ہے تا كہ وہ اللہ تعالى كے قرب كا درجہ اور مرتبہ حاصل كرسكيں.

اور بعض اوقات خوف اور ڈر بندے كو غم اور پريشانى اور بيمارى تك لے جاتا ہے، اور بعض اوقات اسے اللہ تعالى كى رحمت سے نااميدى تك بھى لے جاتا ہے، توپھر ايسا خوف اورڈر جو اس كا سبب بنے وہ قابل تعريف نہيں بلكہ قابل مذمت ہے.

اور يہ جاننا ضرورى ہے كہ بہت سى پريشانياں اور نفسياتى دباؤ كا سبب عدم رضامندى ہوتى ہے لھذا بعض اوقات وہ كچھ ہو جاتا ہے جو ہم نہيں چاہتے، حتى كہ جو كچھ ہم چاہتے ہيں وہ ہو جانے اور مل جانے كے باوجود بھى مكمل اور پورى خوشى نہيں ديتا جس كى ہميں اميد ہوتى ہے، لہذا اس كے پورا ہونے سے قبل ہم نے جس صورت كا خيال كر ركھا ہوتا ہے وہ واقع ہونے سے زيادہ خوبصورت ہوتا ہے.

حتى كہ جو كچھ ہم چاہتے ہيں اس كے ہو جانے كے بعد ہم پريشانى اور قلق كا شكار ہو جاتے اور اس نعمت كے زائل ہوجانے كا خوف شديد ہو جاتا ہے، لھذا اس كا علاج سوائے اللہ تعالى كى رضا اور اس كے فيصلے پر راضى ہونے كے اور كچھ نہيں اور اس كى نعمت پر شكر اور جو كچھ اللہ تعالى نے مشكلات اور مصائب مقدر ميں كى ہيں ان پر صبر كرنے كے علاوہ كچھ نہيں كرنا چاہيے.

اور ہو سكتا ہے آپ كى حالت ڈاكٹر كى محتاج ہو، ليكن آپ يہ علم ہونا چاہيے كہ اكثر لوگوں كے امراض اور بيمارياں عضوي بيمارياں نہيں بلكہ يہ نفسياتى بيمارياں ہوتى ہيں جو اعضاء اورجسم پر اثر انداز ہوتى ہيں.

ڈاكٹر فيرز كا كہنا ہے:

ہر پانچ مريضوں ميں سے چار مريضوں پر ريسرچ كرنے سے يہ بات سامنے آئى ہے كہ ان كى بيمارى كى علت اور سبب بالكل عضوى بيمارى نہيں بلكہ ان كا مرض خوف اور پريشانى اور غيض وغضب، مستحكم ترجيح اور زندگى اور اپنے نفس كے مابين موافقت كرنے سے عاجز ہونے كى بنا پر پيدا شدہ ہيں"

لھذا ديكھيں يعقوب عليہ السلام كا اپنے بيٹے يوسف عليہ السلام پر رونے نے ان كى آنكھوں كى بينائى تك چھين لى، اور عائشہ رضي اللہ تعالى عنہا كو بہتان كى وجہ سے كس طرح غم پہنچا كہ وہ رونے لگ گئيں اور كہنے لگيں" مجھے ايسے لگا كہ غم اور پريشانى ميرے جگر كو چير كر ركھ دے گى" متفق عليہ.

ڈاكٹر حسان شمسى پاشا كہتا ہے:

پريشانى اورغم كى حالت ميں خون ميں ايسا مادہ زيادہ ہو جاتا ہے جسے " اڈرينلين" كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے جس كي بنا پر بلڈ پريشر بڑھ جاتا ہے اور دل كى دھڑكن تيز ہو جاتى ہے اور انسان دھڑكن كي شكايت كرنے لگتا ہے يا پھر اسے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ اس كے سينے ميں كوئى چيز نيچے ہى كھنچى چلى جارہى ہے.

اور دل ميں كئى قسم كے گمان اورخيالات كرنے لگتا اور ايك ڈاكٹر سے دوسرے ڈاكٹر كے پاس بھاگتا پھرتا ہےحالانكہ اس كے دل كو كوئي بيمارى نہيں ہوتى اور نہ ہى اس كےجسم ميں كو ئى بيمارى ہوتى ہے صرف اتنا ہے كہ وہ معدے ميں درد اور بدہظمى كا شكار ہو جاتا ہے يا پھر اس كا پيٹ پھول جاتا ہے اور اس كے پيشاب ميں بے قاعدگى يا اس كے سر ميں درد شروع ہو جاتا ہے. اھـ

انتھى.

لھذا آپ كو چاہيے كہ اپنا ايمان قوى و مضبوط كريں اور شرعى اذكار اور دعائيں با قاعدگى كے ساتھ كيا كريں كيونكہ دل كى پريشانيوں كو ختم كرنے اور اس كے علاج كے ليے سب سے بہتر اور شرعى دعائيں اور اذكار ہى ہيں ان سے نفس كےغم اور پريشانياں دور ہو جاتى ہيں.

اس باب ميں نبوي دعاؤں ميں سے چند ايك يہ ہيں:

1 - انس بن مالك رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ دعا پڑھا كرتے تھے:

" اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والجبن والبخل وضَلَع الدين وغلبة الرجال "

اے اللہ ميں پريشانى اور غم اور عجز اور سستى اور بزدلى اور قرض كے بوجھ اور لوگوں كےغلبہ سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں. صحيح بخارى ( 6008 )

ضلع الدين كا معنى قرض كا غلبہ اور بوجھ ہے.

2 - عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى كو بھى كوئي غم اور پريشانى پيش آئے تو وہ يہ دعا پڑھے تو اللہ تعالى اس كے غم اور پريشانى كو دور كردے گا اور اس كى جگہ آسانى پيدا فرما دے گا:

" اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك ناصيتي بيدك ماضٍ فيَّ حكمك عدل فيَّ قضاؤك ، أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو علمته أحداً من خلقك أو أنزلته في كتابك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وجلاء حزني وذهاب همي "

اے اللہ ميں تيرا بندہ اور تيرے بندے كا بيٹا اور تيرى بندى كا بيٹا ہوں ميرى پيشانى تيرے ہاتھ ميں ہے مجھ ميں تيرا حكم جارى ہے ميرے متعلق تيرا فيصلہ عدل وانصاف پر مبنى ہے، ميں ہر اس اسم كے واسطے سے سوال كرتا ہوں جو تو نے خود ركھا ہے يا اپنى كسى مخلوق كو سكھايا ہے يا پھر اسے اپنى كتاب ميں نازل كيا ہے يا اسے اپنے پاس علم غيب ميں پوشيدہ ركھا ہے كہ قرآن مجيد كو ميرے دل كى بہار بنا اور ميرے سينہ كا نور اور ميرے غم اور پريشانى كا دور كرنے كا باعث بنا.

عبداللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ عرض كى گئى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم اسے دوسروں كا نہ سكھائيں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيوں نہيں جوبھى اسے سنے اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اسے سكھائے" مسند احمد حديث نمبر ( 3704 ) . علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو السلسلۃ الصحيحۃ ميں صحيح قرار ديا ہے ديكھيں: حديث نمبر ( 199 ).

3 - سعد بن ابى وقاص رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب يونس عليہ السلام مچھلى كے پيٹ ميں تھے تو انہوں نے يہ دعا كى تھى:

" لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين " تيرے سوا كوئى معبود برحق نہيں تو پاك ہے بلاشبہ ميں ہى ظالموں ميں سے ہوں.

جو مسلمان شخص بھى كسى معاملہ ميں يہ دعا مانگتا ہے اللہ تعالى اس كى دعا كو قبول فرماتا ہے. ديكھيں: جامع ترمذى حديث نمبر ( 3505 ). علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح الجامع ميں صحيح قرار ديا ہے ديكھيں حديث نمبر ( 3383 ) .

اس كى اہميت اور تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 21677 ) كے جوابات كو ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب