سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بانجھ پن كا انجيكشن استعمال كرنا

47196

تاریخ اشاعت : 13-12-2009

مشاہدات : 7834

سوال

ايك عورت كى شادى بيس برس قبل ہوئى اور پہلا حمل ساقط كروانے كے بعد حمل كے خوف سے مانع حمل گولياں استعمال كرتى رہى، ليكن پھر بھى اسے حمل ہوتا رہا اور آپريشن كے ساتھ تين بچے پيدا ہوئے، اور آخرى بچے كے بعد ليڈى ڈاكٹر گئى تا كہ بالكل ہى ختم كروا سكے، اور بالفعل اس نے انجيكشن لگايا اور وہ بانجھ ہو گئى، ليكن اب وہ اپنے اس فعل پر نادم ہے كيا اس پر كچھ لازم آتا ہے، اور اس كے خاوند كو بھى اس كا علم ہے، توبہ كرنے كے علاوہ اس عورت پر كيا كرنا لازم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت مطہرہ نے اولاد پيدا كرنے اور كثرت نسل كى ترغيب دلائى ہے، حتى كہ اللہ كے نبى شعيب عليہ السلام نے اپنى قوم پر يہ بطور احسان ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

اور تم ياد كرو جب تم قليل تھے تو اللہ عزوجل نے تمہيں كثرت دى الاعراف ( 86 ).

اور معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو بہت زيادہ محبت كرنے والى اور بہت زياد بچے پيدا كرنے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت كے ساتھ سارى امتوں پر فخر كروں گا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 13492 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

مكمل طور پر نسل كشى يعنى بچے بند كرانے كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

ضرورت كى بنا پر ايسا كيا جائے، مثلا كسى ماہر اور تجربہ كار ڈاكٹر كى رپورٹ سے ثابت ہو كہ عورت كى زندگى كے ليے حمل خطرہ ہے، اور اس كا علاج بھى نہيں ہو سكتا، جس كى بنا پر اور خطرہ سے اجتناب كے ليے مكمل طور پر اسے ختم كرنے كا فيصلہ كر ليا جائے تو اس وقت نسل بند كرانى جائز ہے.

دوسرى حالت:

كوئى ضرورت نہ ہو، ايسى حالت ميں بلاشك و شبہ نسل بند كرانا ايك بڑا جرم اور عظيم گناہ ہے، كيونكہ بغير كسى سبب كے اللہ كى مخلوق پر زيادتى ہے، اور نسل كو بند كرنے كا باعث بنتا ہے جس كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رغبت دلائى ہے، اور اولاد كى نعمت كى ناشكرى ہے جو كہ مخلوق پر اللہ كى عظيم نعمت شمار ہوتى ہے.

الانصاف ميں درج ہے:

" الفائق ميں قول ہے: " حمل كو ختم كرنے والى چيز كا استعمال جائز نہيں "

ديكھيں: الانصاف ( 1 / 383 ).

اور اسلامى فقہ اكيڈى ميں درج ہے:

مرد اور عورت ميں بچہ پيدا كرنے كى قدرت كو ختم كرنا حرام ہے، جو بانجھ كے نام سے پہچانا جاتا ہے، جب تك اس كى كوئى ضرورت نہ ہو اور شرعى امور كو مدنظر ركھتے ہوئے جائز ہو گا.... كچھ دير كے ليے حمل ميں بطور وقفہ يا پھر كچھ مدت كے ليے حمل كو روكنا جائز جب شرعى طور پر اس كى ضرورت پيش آئے اور خاوند و بيوى كى مشاورت و رضامندى سے ہو ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ ايسا كرنے ميں كوئى ضرر و نقصان نہ ہوتا ہو، اور پھر كسى شرعى ذريعہ اور وسيلہ سے كيا جائے، اور ٹھرے ہوئے حمل پر كوئى زيادتى نہ ہو " انتہى

ديكھيں: مجمع الفقہ الاسلامى قرار نمبر ( 39 ) ( 1 / 5 ).

اس بنا پر اگر تو آپ نے نسل كشى اور نص بندى اس ليے كرائى كہ اس كى ضرورت تھى اور اوپر جو بيان ہوا ہے اس كے مطابق تھى تو آپ پر كچھ لازم نہيں.

ليكن اگر بغير ضرورت كے تھى تو ايك حرام كام كا ارتكاب ہوا ہے، اس ليے آپ كو سچى توبہ كرنا ہو گى، اور فورى طور پر اس طرح كى ادويات اور انجيكشن وغيرہ لينے سے ركنا ہو گا، اور اگر اس كو بغير كسى ضرر كے ختم كرايا جا سكتا ہے يعنى وہ نص بندى ختم كرا كر بچے پيدا كرنے كى صلاحيت واپس لائى جا سكتى ہے تو ايسا كرنا واجب ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب