اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مجسم كھلونوں كي فروخت كےبارہ ميں سوال اور كيا يہ روزے پر اثر انداز ہوگا

49844

تاریخ اشاعت : 19-10-2004

مشاہدات : 10315

سوال

ميں كھلونوں كي دكان پر ملازمت كرتا ہوں اور ہم گڑيا اورانساني شكل ميں بنے ہوئے كھلونےفروخت كرتےہيں، اس كا حكم كيا ہے؟ اور كيا ميرے اس كام كي بنا پر روزے ركھنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 7222 ) كےجواب ميں تصاوير اور مجسمے بنانے كي حرمت اور اسي طرح سوال نمبر ( 49676 ) كےجواب ميں ان كي خريدوفروخت كا بھي بيان گزرچكا ہے اس ليے اس كا مطالعہ كريں .

ليكن اگر يہ تصاوير اور گڑياں بچوں كےليے كھلونے ہيں تو سنت سے اس كا جواز ملتا ہے، صحيحين ميں عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا سےحديث مروي ہےكہ:

وہ بيان كرتي ہيں: ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس گڑيوں كےساتھ كھيلا كرتي تھي اور ميري سہيلياں ميرے ساتھ كھيلتي تھيں ..... الحديث صحيح بخاري حديث نمبر ( 6130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2440 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

اس حديث سے بچيوں كي تصاوير اور كھلونے بنانےكا جواز ملتا ہے تاكہ اس سے بچياں كھيل سكيں، اور تصاوير كي نہي كےعموم سے يہ خاص ہے، قاضي عياض كا يہي كہنا ہے اور جمہور سےنقل كياہے كہ انہوں نے بچيوں كے ليے كھلونےفروخت كرنے كي اجازت دي ہے تا كہ وہ بچپن سے ہي گھريلو ديكھ بھال اور اپني اولاد كي تربيت كرنے كي تدريب حاصل كرسكيں، اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالي كھلونوں كےساتھ چھوٹي بچيوں كےكھيلنےكي اباحت كا باب باندھا ہے ..

اور جرير عن ھشام كي روايت ميں ہےكہ:

ميں گڑيوں كےساتھ كھيلا كرتي تھي اوروہ كھلونےتھے. اسے ابوعوانہ وغيرہ نےروايت كيا ہے.

اور ابوداود اور نسائي نےايك دوسرے طريق سے عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا سےروايت كي ہےكہ:

وہ بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم غزوہ تبوك يا غزوہ خيبر سے واپس تشريف لائے " پھر وہ حديث ذكر كي جس ميں ہے كہ عائشہ رضي اللہ تعالي نےاپنےدروازے پر پردہ نصب كيا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےوہ پردہ پھاڑ ديا، عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كہتي ہيں:

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كےكھلونوں ميں سے ان گڑيوں كا پردہ ہٹ گيا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: اےعائشہ يہ كيا؟ وہ كہنے لگي ميري گڑياں ہيں، عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس ميں ايك گھوڑا ديكھا جس كےدو پر بھي تھے تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كہنےلگے: يہ كيا ؟ ميں نےجواب ديا گھوڑا ہے تو رسول كريم صلي اللہ وسلم نےفرمايا: گھوڑے كےدو پر؟ ميں نے كہا كيا آپ نےنہيں سنا كہ سليمان عليہ السلام كا ايك گھوڑا تھا جس كےدو پر تھے؟ تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے" اختصار كےساتھ حديث مكمل ہوئي .

جوروايت ابن حجر رحمہ اللہ تعالي نےذكر كي ہے وہ ابوداود كي حديث نمبر( 22813 ) ہے اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے غايۃ المرام ( 129 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

وہ جس ميں پوري اور مكمل شكل نہ ہو بلكہ صرف اس ميں بعض اعضاء اور سروغيرہ تو ہو ليكن پوري شكل واضح نہ ہوتي ہو اس جائز ہونےميں تو كوئي شك نہيں بلكہ يہ اسي گڑيوں كي طرح ہيں جو عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كےپاس تھيں جن سے وہ كھيلا كرتي تھيں.

ليكن اگر كھلونے ميں پوري شكل وشباہت پائي جائے گويا كہ كسي انسان كا ہي مشاہدہ كيا جارہا ہے اور خاص كر اگر اس ميں حركات وسكنات بھي ہوں يا آواز پائي جائے تواس كےجواز ميں ميرے نزديك كچھ كچھ نہ گڑ بڑ ضرور ہے اس ليے كہ يہ مكمل طور پر اللہ تعالي كي خلق سے مشابہ ہے، ظاہر تويہي ہے كہ عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كے كھلونے اس طرح كےنہيں تھے اس ليے ان سے بچنا بہتر اور اولي ہے ليكن ميں اسے قطعي طور پر حرام نہيں كہتا اس ليے كہ اس طرح كےامور ميں بچوں كےليے وہ كچھ رخصت ہے جس كي بڑي عمر كے لوگوں كےليے رخصت نہيں اس ليے كہ بچہ طبعي طور پر كھيل كود ميں مائل ہوتا ہے اور عبادات ميں سے كسي ايك كا بھي مكلف نہيں ہوتا حتي كہ ہم يہ كہيں:

كھيل كود ميں اس كا وقت ضائع ہوتا ہے ، اور جب انسان اس طرح كے معاملات ميں احتياط كرنا چاہے تو اسے كھلونے كا سر كاٹ دينا چاہيے يا پھر اسے آگ ميں گرم كر كے اس كا چہرہ مسخ كردے تاكہ شكل وشباہت ختم ہوجائے .

ديكھيں: مجموع فتاوي شيخ ابن عثيمين ( 2 / 277- 278 )

اورسائل كا يہ كہنا كہ: كيا ميرے ليے اس كام كےسبب بعد ميں روزے شروع كرنا جائز ہيں ؟

ہميں تومكمل پتہ نہيں چلا كہ اس سے سائل كي مراد كيا ہے، اگر تو وہ يہ مراد لے رہا ہے كہ يہ كام اس كےروزے كو باطل كردےگا تواس كے حق ميں يہ مشروع ہے كہ كسي دوسرے وقت ميں جب وہ يہ حرام ملازمت نہ كررہا ہو اس دوران ان روزں كي قضا ادا كرے، تواس كا بيان گزچكا ہے كہ ہر قسم كي نافرماني اور گناہ روزوں پر اثر انداز ہوتي ہيں تواس طرح اس سے اجروثواب ميں كمي ہوگي، اور بعض اوقات جب اس كي معصيت وگناہ زيادہ ہوں تو مكمل طور پر ہي اجروثواب سے محروم ہو سكتا ہے، ليكن اس كا روزہ باطل نہيں ہوگا اور نہ ہي اسے اس روزے كي قضاء كا حكم ديا جائےگا بلكہ اسے چاہيے كہ وہ ہر وقت مكمل طور پران معاصي اور گناہوں سے رك جائے اور خاص كر رمضان المبارك كے مہينہ ميں .

مزيد تفصيل كےليے سوال نمبر ( 37877 ) اور ( 37989 ) كےجواب كا مطالعہ كريں .

اوراگر وہ كسي اور معاملہ ميں سوال كرنا چاہے توہماري گزارش ہے كہ وہ اس كي اچھي طرح وضاحت كرے تاكہ ہم اس كا جواب صحيح طور پر دے سكيں .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب