سوموار 29 جمادی ثانیہ 1446 - 30 دسمبر 2024
اردو

مسافر پر كب روزہ نہ ركھنا حرام ہے ؟

سوال

مسافر پر كب روزہ نہ ركھنا حرام ہے، سبب كے ساتھ بيان كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن كريم اور سنت نبويہ اور اجماع امت اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مسافر رمضان المبارك ميں روزہ افطار كر سكتا ہے، اس كى دليل اللہ سبحانہ وتعالى كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گتنى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 37717 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

فقھاء كرام رحمہم اللہ نے بيان كيا ہے كہ اس مسافر كے ليے روزہ ترك كرنا مباح ہے جو قصر كى مسافت جتنا سفر كرے، اور اس كا سفر مباح اور حلال ہو.

ليكن اگر كوئى شخص قصر كى مسافت جتنا سفر نہيں كرتا، يا پھر اس كا سفر معصيت اور برائى كا سفر ہے، تو ان دونوں كے ليے قصر كرنى مباح نہيں اور اسى طرح اگر وہ روزہ نہ ركھنے كے ليے سفر كرتا ہے تو اس پر سفر اور روزہ نہ ركھنا دونوں حرام ہيں.

اور جمہور علماء كے ہاں قصر كى مسافت چار بريد ہے جو تقريبا 80 اسى كيلو ميٹر كے برابر ہے، اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ مسافت كا كوئى اعتبار نہيں، بلكہ جسے لوگ سفر كا نام ديتے ہيں وہ معتبر ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 38079 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور يہ قول كہ معصيت كا سفر كرنے والے كے ليے روزہ چھوڑنا مباح نہيں اور نہ ہى اسے سفر كى دوسرى رخصتيں مباح ہيں مثلا نماز قصر كرنا، يہ مالكى، شافعى اور حنابلہ كا مذہب ہے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 2 / 52 ).

اور انہوں نے اپنے اس قول كى تعليل يہ بيان كى ہے كہ: روزہ چھوڑنا ايك رخصت ہے، اور معصيت كا سفر كرنے والا رخصت كا اہل نہيں، اور ان ميں سے كچھ نے مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:

جو كوئى مضطر اورمجبور ہو جائے اور وہ بغاوت كرنے اور حد سے تجاوز كرنے والا نہ ہو تو اس پر كوئى گناہ نہيں البقرۃ ( 173 ).

اس كى وجہ الدلالت يہ ہے كہ: اللہ سبحانہ وتعالى نے باغى اور حد سے تجاوز كرنے والے مضطر كے ليے مردار كھانا مباح نہيں كيا، كيونكہ وہ نافرمان ہيں.

ان كا كہنا ہے كہ: باغى وہ ہے جو امام كے خلاف خروج كرے، اور حد سے تجاوز كرنے والا عادى وہ ہے جو لٹيرا ہو اور ڈاكہ ڈالے اور لڑائى كرے.

اور حنفيہ كا كہنا ہے كہ: اسے روزہ چھوڑنے اور نماز قصر كرنے كى رخصت ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں: البحر الرائق ( 2 / 149 ) مجموع الفتاوى ( 24 / 110 ).

اور انہوں نے جمہور كے اس آيت سے استدلال كو تسليم نہيں كيا بلكہ ان كا كہنا ہے كہ: باغى اور حد سے تجاوز كرنے والا وہ ہے جو حلال كھانے كى قدرت ركھنے كے باوجود حرام كھانا طلب كرے، اور معتدى وہ ہے جو ضرورت سے زيادہ مقدار سے تجاوز كرے.

اور جس شخص نے روزہ چھوڑنے كے ليے سفر كيا تو يہ شريعت اسلاميہ پر ايك حيلہ ہے اور اس كے مقصد كے مخالف اسے سزا دى گئى ہے.

فقہ حنبلى كى كتاب " كشاف القناع " ميں ہے:

ليكن اگر وہ روزہ چھوڑنے كے ليے سفر كرتا ہے تو اس پر حرام ہے، يعنى سفر اور روزہ چھوڑنا، كيونكہ اس كے سفر كى علت روزہ چھوڑنے كے علاوہ كچھ نہيں، روزہ چھوڑنا اس ليے حرام ہے كہ اس كا كوئى مباح عذر نہيں، اور سفر اس ليے حرام ہے كہ يہ حرام روزہ چھوڑنے كا ايك وسيلہ ہے. انتہى

كچھ كمى و بيشى كے ساتھ ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 312 ).

اور مسافر اپنے شہر يا بستى چھوڑنے سے پہلے روزہ نہيں چھوڑ سكتا، لہذا اس پر اس سے قبل روزہ چھوڑنا حرام ہے؛ كيونكہ وہ اس وقت مقيم ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 48975 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس بنا پر مسافر كے ليے كچھ مواقع پر روزہ چھوڑنا حرام ہے جن ميں سے چند ايك يہ ہيں:

1 - جب اس كا سفر قصر كى مسافت كو نہ پہنچتا ہو.

2 - جمہور علماء كے ہاں جب اس كا سفر مباح اور حلال نہ ہو.

3 - جب اس كا سفر روزہ چھوڑنے كے ليے ہو.

4 - جب اس كا ارادہ سفر كرنے كا ہو اور اپنى بستى يا شھر كے گھروں كو چھوڑنے سے قبل روزہ چھوڑنے كا ارادہ ہو.

5 - ايك پانچويں حالت بھى ہے جس ميں جمہور علماء كے ہاں مسافر پر روزہ چھوڑنا حرام ہے، وہ يہ كہ جب سفر كر كے جانے والے شہر ميں چار دن سے زيادہ قيام كرے، اور دوسرے علماء كرام كى رائے ہے كہ مسافر جب تك مسافر ہے اسے سفر كى رخصتيں حاصل ہيں، چاہے مدت كتنى بھى لمبى ہو جائے.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21091 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب