اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا وتر كى نماز رات كى نماز سے مختلف ہے ؟

سوال

كيا نماز وتر اور رات كى نماز ميں كوئى فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز وتر رات كى نماز ميں ہى شامل ہوتى ہے، ليكن اس كے باوجود ان دونوں ميں فرق ہے:

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز وتر رات كى نماز ميں سے ہے، اور يہ سنت اور رات كى نماز كا اختتام ہے، رات كے آخر يا درميان يا عشاء كى نماز كے بعد رات كے شروع ميں ايك ركعت وتر كى ادائيگى سے رات كى نماز كا اختتام كيا جاتا ہے، رات كو اس كے ليے جتنى نماز ميسر ہو ادا كرے اور ايك پھر ايك ركعت ادا كر كے اس كا اختتام كرے" انتھى

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 11/ 309 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" قولى اور فعلى سنت نے رات كى نماز اور وتر ميں فرق كيا ہے، اور اسى طرح اہل علم نے بھى اس كى كيفيت اور حكم ميں فرق كيا ہے:

ان دونوں نمازوں ميں قولى سنت كى تفريق:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے رات كى نماز كى كيفيت كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دو دو ہے، اور جب آپ كو صبح كا خدشہ ہو تو ايك وتر ادا كر لو"

صحيح بخارى ديكھيں فتح البارى ( 3 / 20 ).

ان دونوں نمازوں كے مابين فعلى سنت كى تفريق:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ادا كرتے اور ميں ان بستر پر ليٹى ہوتى تھى اور جب وہ وتر ادا كرنا چاہتے تو مجھے بيدار كر كے وتر ادا كرتے"

صحيح بخارى ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 487 ).

اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ان الفاظ كے ساتھ روايت كي ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كى نماز ادا كرتے اور ميں ان كے سامنے ليٹى ہوتى تھى، اور جب وتر باقى رہ جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مجھے بيدار كر كے وتر ادا كرتے"

صحيح مسلم ( 1 / 51 ).

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ہى مسلم رحمہ اللہ نے روايت كى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو تيرہ ركعت ادا كرتے جن ميں پانچ وتر ہوتے ان وتروں ميں صرف آخرى ركعت ميں بيٹھتے تھے"

صحيح مسلم ( 1 / 508 ).

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ہى سے مروى ہے جب سعد بن ھشام بن عامر نے ان سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وتر كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگيں:

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعت ادا كرتے ان ميں سے صرف آٹھويں ركعت ميں بيٹھتے اور اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتےاور اللہ سے دعا كر كے بغير سلام پھيرے اٹھ جاتے اور پھر نويں ركعت كر كے بيٹھتے اور اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور اللہ تعالى سے دعا كر كے سلام پھيرتے اور يہ سلام ہميں سناتے تھے"

صحيح مسلم ( 1 / 513 ).

اور رات كى نماز اور وتر ميں علماء كرام نے جو فرق كيا ہے وہ يہ ہے:

علماء كرام وتر كے وجوب ميں اختلاف كرتے ہيں:

ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى اسے واجب قرار ديتے ہيں، اور امام احمد سے بھى يہ ايك روايت ہے جو " الانصاف " اور " الفروع" ميں مذكور ہے، امام احمد كہتے ہيں: جس نے جان بوجھ كر وتر ترك كيا وہ برا آدمى ہے، اور اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے.

اور مشھور مذہب يہ ہے كہ وتر سنت ہے، اور امام مالك اور امام شافعى رحمہم اللہ كا مذہب يہى ہے.

ليكن رات كى نماز ميں كوئى اختلاف نہيں، فتح البارى ميں ہے:

" بعض تابعين كے كسى سے بھى اس كے وجوب ميں كوئى قول منقول نہيں ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: بعض تابعين نے بطور شاذ قيام الليل كو واجب قرار ديا ہے، چاہے بكرى كا دودھ نكالنے كى مدت جتنا ہى قيام كيا جائے اور علماء كى جماعت كا مسلك ہے كہ يہ مندوب ہے" انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 27 ).

اور علماء كرام نے رات كى نماز اور وتر كى كيفيت ميں بھى فرق كيا ہے:

ہمارے حنبلى فقھاء نے ان دونوں كے مابين صراحتا فرق بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

رات كى نماز دو دو ہے، اور وتر ميں ان كا كہنا ہے كہ: اگر وہ پانچ، يا سات وتر ادا كرے تو صرف اس كى آخرى ركعت ميں بيٹھے گا، اور اگر وہ نو وتر اكٹھے ادا كرے تو وہ آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھے اور پھر سلام سے قبل اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے تشھد ميں بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اور صاحب " المستقنع" نے بھى يہى كہا ہے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 262 - 264 ).

تو اس سے يہ علم ہوا كہ نماز وتر رات كى نماز ميں سے ہے، ليكن اس ميں اور رات كى نماز ميں كچھ فرق ہيں: جن ميں وتروں كى كيفيت ميں بھى فرق ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب