سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

صرف ایک مقتدی اور امام کے ساتھ با جماعت نماز ہو سکتی ہے۔

سوال

اگر گھر میں صرف دو افراد ہوں تو کیا ان کی با جماعت نماز ہو سکتی ہے کہ ایک امام بن جائے اور دوسرا مقتدی بن جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں! با جماعت نماز کے لیے دو افراد امام اور مقتدی کافی ہوتے ہیں، چاہے جماعت گھر میں کروانی ہو یا گھر سے باہر کہیں بھی؛ اس کی دلیل میں امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "باب ہے: دو اور دو سے زیادہ افراد جماعت ہیں۔" پھر اس کے بعد سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم دونوں میں سے کوئی بھی اذان کہے اور اقامت پڑھے، پھر امامت وہی کروائے جو تم میں سے بڑا ہو۔) بخاری: (658)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے کہ: دو اور دو سے زیادہ افراد جماعت ہیں۔ یہ الفاظ در حقیقت ضعیف اسانید کے ساتھ آنے والی ایک روایت کے ہیں۔۔۔، ایک بار "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کوئی ہے جو اس پر نیکی کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز ادا کر لے؟ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس کے ساتھ نماز ادا کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ دونوں جماعت ہیں۔" یہ واقعہ آخری جملے "یہ دونوں جماعت ہیں۔" کے علاوہ ابو داود اور ترمذی میں ایک اور صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔"

ابن حجر رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ کم از کم جماعت امام اور ایک مقتدی کی ہوتی ہے، اور مقتدی میں کوئی مرد، بچہ، یا کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے۔" ختم شد

مذکورہ بالا عبارت میں جس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تذکرہ کیا ہے وہ سنن ابو داود: (554) میں ہے ، اس میں ہے کہ: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: (کوئی ہے جو اس بندے پر صدقہ کرے اور اس کے ہمراہ نماز ادا کرے؟) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع : (2652) میں صحیح قرار دیا ہے۔

صاحب عون المعبود کہتے ہیں:
"مطلب یہ ہے کہ اسے جماعت کا ثواب مل جائے تو گویا ایسا ہی ہے کہ کسی نے اس پر جماعت کا ثواب صدقہ کیا ہے۔" ختم شد

ایسے ہی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص کی دوسرے شخص کے ساتھ مل کر ادا کی گئی نماز اکیلے نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔ اسی طرح ایک شخص کی دو افراد کے ساتھ مل کر ادا کی گئی نماز ایک شخص کے ساتھ والی نماز سے افضل ہے، نماز میں جس قدر افراد زیادہ ہوں گے وہ اللہ تعالی کو اتنے ہی محبوب ہوں گے۔) اس حدیث کو نسائی : (843) اور ابو داود: (554) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع: (2242) میں صحیح قرار دیا ہے۔

لیکن یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ انسان پر مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنا واجب ہے، لہذا فرض نماز گھر میں با جماعت یا اکیلے تبھی ادا کر سکتا ہے جب کوئی عذر ہو۔

دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا: کیا دو افراد کا جماعت کروانا صحیح ہے یا نہیں؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"دو یا زیادہ افراد جماعت کروائیں تو یہ صحیح ہے، تاہم افراد جتنے زیادہ ہوں گے فضیلت اتنی ہی زیادہ ہوتی چلی جائے گی، لیکن اس کے باوجود نماز مسجد میں با جماعت ادا کرنی چاہیے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7/289)

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ گھر میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب میں کہا:
"ہم انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے ڈریں اور مسلمانوں کے ساتھ مسجدوں میں نماز ادا کیا کریں؛ کیونکہ اس مسئلے میں اہل علم کا صحیح ترین موقف یہ ہے کہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنا واجب ہے، الا کہ کوئی عذر ہو تو گنجائش ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں اور پھر ایک شخص کو لوگوں کی جماعت کے لیے کہوں، پھر میں خود ایسے لوگوں کے ساتھ چلوں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ، اور نماز با جماعت میں شامل نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔) دیکھیں: صحیح بخاری: (644)، صحیح مسلم: (651)

حالانکہ یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز با جماعت ادا کرتے ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ منشا تھی کہ یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کریں جنہیں شریعت نے مقرر کیا ہے، اور جنہیں شریعت نے مقرر کیا ہے وہ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں، یعنی ایسی مساجد جہاں پر نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، اسی لیے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالی کے ساتھ مسلمان ہونے کی حالت میں ملاقات کرے تو ان نمازوں کو وہاں ادا کرے جہاں نمازوں کے لیے اذان دی جاتی ہے" تو انہوں نے "جہاں اذان دی جاتی ہے۔" کہا ہے جو کہ ظرف مکان ہے، یعنی مساجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرے۔" ختم شد
"فتاوی الشیخ ابن عثیمین" (15/19)

اس مسئلے کے حوالے سے مزید دلائل اور فوائد جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (8918 ) اور (40113 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب