الحمد للہ.
بنك ميں سود پر رقم ركھنى كبيرہ گناہ ہے، عمدا اور جان بوجھ كر بنك ميں سود پر رقم ركھنى جائز نہيں تا كہ اس سودى مال سے خيراتى كام پورے كيے جائيں، چہ جائيكہ وہ اسے اپنے استعمال ميں لائے.
تو اگر كسى مسلمان شخص نے اپنى رقم سودى كمپنى ميں ركھى اور پھر اللہ تعالى نے اس پر انعام كيا اور وہ سود سے توبہ كر لے تو اس پر اس سودى نفع سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، وہ يہ كہ اسے كسى خيراتى اور نيكى كے كام ميں صدقہ كر دے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے اور پكے مؤمن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كروگے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو اصل مال تمہارے ہى ہيں، نہ تو تم ظلم كرو، اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 179 - 278 ).
اور اس كے ليے اس سودى مال سے نفع اٹھانا جائز نہيں، نہ تو وہ اس سے ٹيكس ادا كر سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے علاوہ كسى اور دوسرے كام ميں جس كا نفع اسے حاصل ہو.
اس بنا پر اگر وہ راستہ اس كے ليے اپنے ليے مخصوص ہے، وہ اس طرح كہ وہ راستہ اس كے گھر كو جاتا ہے، تو اس سودى رقم سے اسے صحيح كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس كا نفع اسے حاصل ہوگا، ليكن اگر وہ راستہ اور سڑك عام ہے وہ خود بھى اور اس كے علاوہ باقى لوگ بھى اس سے نفع اٹھائينگے تو اس مال سے صحيح اور مرمت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
آپ درج ذيل سوالات كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں:
سوال نبمر ( 292 ) اور ( 2370 ) اور ( 20876 ) اور ( 23346 ) اور ( 22392 ) اور ( 49677 ) اور ( 30798 ).
واللہ اعلم .