جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

عورت كى طلاق كا سبب بننے والا شخص

6315

تاریخ اشاعت : 08-02-2011

مشاہدات : 5620

سوال

ايك شخص نے اپنى بيوى اور والدين كى لا علمى ميں شادى كر لى، گھر والوں كا گمان ہے كہ يہ بيوى اہل سنت سے تعلق نہيں ركھتى اس ليے والدہ اسے طلاق دينے پر اصرار كرتى ہے، والدہ نے بيٹے ك واسے طلاق دينے پر مجبور كر ديا تو اس شخص نے ماں كى بات تسليم كرتے ہوئے بيوى كو طلاق دے دى.
پھر والدہ اس پر نادم ہوئى اب وہ يہ دريافت كرنا چاہتى ہے كہ آيا كيا اسے اس عمل پر گناہ تو نہيں ہو گا، اور اگر وہ گنہگار ہے تو اس كا كفارہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحيح يہى ہے كہ بغير كسى عذر اور سبب كے عورت كو طلاق دينا جائز نہيں كيونكہ يہ عورت پر ظلم ہے، اور پھر بغير كسى سبب كے نعمت زوجيت كو ختم اور تباہ كرنا، اور اس خاندان كو ضائع كرنا ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے بنى آدم كے ليے ايك نعمت قرار ديا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سارى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

اور والدين كى اطاعت و فرمانبردارى تو ہر اس كام ميں ہے جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پسند كرتے ہيں، اس كام ميں والدين كى اطاعت جائز نہيں جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے.

جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں كسى كى بھى اطاعت نہيں، بلكہ اطاعت تو نيكى كے كام ميں ہے "

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ دونوں تچھ پر اس بات كا دباؤ ڈاليں كہ تو ميرے ساتھ شريك كرے جس كا تجھے علم نہ ہو تو تو ان كا كہنا نہ ماننا، ہاں دنيا ميں ان كے ساتھ اچھى طرح بسر كرنا اور اس كى راہ چلنا جو ميرى طرف جھكا ہوا ہو، تمہارا سب كا ميرى طرف لوٹنا ميرى ہى طرف ہے، تم جو كچھ كرتے ہو اس سے پھر ميں تمہيں خبردار كرونگا لقمان ( 15 ).

ماں يا باپ پر اس كا كوئى كفارہ نہيں اگر وہ ايسا كر بيٹھيں ت وانہيں اللہ سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اس معاملہ كى اصلاح كرنے كى كوشش كرنى چاہيے اور انہيں دوبارہ جمع كر ديں، تو انہيں اس ميں اجروثواب حاصل ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ان كے اكثر خفيہ مشروں ميں كوئى خير نہيں، ہاں بھلائى اس كے مشورے ميں ہے جو خيرات كا يا نيك بات كا يا لوگوں ميں صلح كرانے كا حكم كرے، اور جو شخص صرف اللہ تعالى كى رضامندى حاصل كرنے كے ارادہ سے يہ كام كرے اسے ہم يقينا بہت بڑا ثواب ديں گے النساء ( 114 ).

ماخذ: المرجع: مسائل و رسائل محمد المحمود النجدى ( 59 )