جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا آخرى عشرہ ميں اكيلا ہى اعتكاف بيٹھ جائے يا كہ گھر جا كر بيوى بچوں كے ساتھ مل كر عبادت كرے ؟

سوال

ميں روزانہ ڈيوٹى پر جانے كے ليے تقريبا ( 122 ) كلو ميٹر سفر كرتا ہوں، ليكن رمضان كے دوران جہاں ملازمت كرتا ہوں اسى شہر ميں پانچ يوم يعنى سوموار سے سے جمعہ تك رہتا ہوں، اور گھر والوں كو سارا ہفتہ نہيں ملتا، تو كيا ميرے ليے سفر كے دوران روزہ ركھنا جائز ہے، كيونكہ سفر ان ايام ميں سفر مشقت والا نہيں رہا، اور كيا ميرا روزہ صحيح ہو گا ؟
اور ماہ كے آخر ميں دس چھٹياں لے كر اسى شہر ميں اعتكاف كرنا بہتر ہے، يا كہ اپنے گھر جا كر خاندان كے ساتھ مل كر عبادت كرنا كيونكہ ميں ان كے ساتھ زيادہ وقت بسر نہيں كر سكا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسافر شخص كے ليے رمضان ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو تم ميں سے جو بھى اس ماہ ( رمضان ) كو پا لے وہ اس كے روزے ركھے، اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تود وسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).

اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ سفر مشقت والا ہو يا آسان و سہل.

ليكن يہ ہے كہ آيا مسافر كے ليے روزہ ركھنا افضل ہے يا كہ روزہ نہ ركھنا ؟

ا سكا جواب يہ ہے كہ:

اگر اسے مشقت نہ ہو تو مسافر كے ليے روزہ ركھنا افضل ہے، اور اگر مشقت ہوتى ہو تو روزہ نہ ركھنا افضل ہے.

اس كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 65629 ) اور ( 20156 ) كے جوابات ميں مل سكتى ہے، آپ ا سكا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

ہمارے بھائى آپ كے ليے افضل اور بہتر تو يہى ہے كہ آپ اپنے گھر والوں كے ہاں واپس جائيں اور گھريلو معاملات ميں بيوى كى معاونت كريں؛ اور تا كہ آپ آخرى عشرہ كو غنيمت جان كر اپنے گھر والوں كو اطاعت و فرمانبردارى ميں معاون ثابت ہوں.

اور آپ كا اپنے بيوى بچوں كے ساتھ رہنا اور انہيں عبادت و اطاعت پر ابھارنا اكيلے اعتكاف كرنے سے زيادہ بہتر ہے، كيونكہ آپ كے بعد وہ اس سے محروم رہينگے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا آخرى عشرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حال بيان كرتى ہوئى كہتى ہيں:

" اور وہ اپنے گھر والوں كو بھى بيدا كرتے "

يعنى انہيں عبادت و دعاء اور نماز كے ليے بيدار كرتے تھے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر والوں كو چھوڑ كر خود اعتكاف نہيں بيٹھ جاتے تھے، كہ گھر والوں كا خيال ہى نہ ہو، صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ ام المومنين صفيہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اعتكاف كى حالت ميں زيارت كى.

اور يہ بھى ثابت ہے كہ انہوں نے آپ كے ساتھ اعتكاف بھى كيا، اور پھر اعتكاف تو خاص عبادت ہے جو متعدى نہيں، اور آپ كا اپنے بيوى بچوں كے ساتھ رہنا، اور انہيں عبادت اور حسن معاشرت پر ابھارنا ايسے اعمال ہيں جو متعدى ہيں، جن كا آپ كے علاوہ دوسروں كو بھى فائدہ ہے، اور انكے اطاعت و فرمانبردارى كے اعمال كے اجروثواب سے آپ محروم نہيں ہونگے، اور نہ ہى آپ خود عبادت سے محروم رہينگے.

اور پھر آپ كے ليے يہ بھى ممكن ہو سكتا ہے كہ آپ انہيں لے كر كسى مسجد ميں قيام الليل كريں، اور رات كے آخرى حصہ ميں انہيں نماز كى ادائيگى، اور قرآت قرآن اور دعاء كے ليے بھى بيدار كرنا ممكن ہے، اور يہ بہتر ہے جو آپ كو بھى اور آپ كے گھر والوں كو بھى فائدہ دےگا.

اس ليے ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے گھر والوں كے پاس واپس جائيں، اور وہاں جا كر اطاعت و فرمانبردارى كے كام كريں اور اپنے محلے كى كسى مسجد ميں اعتكاف كر ليں، تو اس طرح آپ اطاعت كے دو كام جمع كر سكتے ہيں، اور ان شاء اللہ اجر عظيم حاصل كرينگے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنى محبت و رضامندى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور آپ اور آپ كے گھر والوں كے اعمال قبول فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب