ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

ايام تشريق كے روزوں كا حكم

سوال

ايك شخص نے گيارہ، بارہ ذوالحجہ كا روزہ ركھا تو اس كے روزے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

گيارہ اور بارہ، اورتيرہ ( 11 . 12 . 13 ) ذوالحجہ ايام تشريق كہلاتے ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ان ايام كے روزے ركھنے ثابت ہيں، ان ايام كے روزے ركھنے رخصت بھى صرف انہيں حاجيوں كو ہے جو حج تمتتع يا حج قران كريں اور قربانى نہ كر سكيں، اس كے علاوہ كسى كو رخصت نہيں.

امام مسلم رحمہ اللہ نے نبيشہ ہذلى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايام تشريق كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے ايام ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1141 ).

اور امام احمد رحمہ اللہ نے حمزہ بن عمرو اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے ايك شخص كو منى ميں اونٹ پر سوار ہو كر لوگوں كے خيموں ميں اعلان كرتے ہوئے ديكھا، اور وہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ بھى موجود تھے: آدمى يہ اعلان كر رہا تھا: ان ايام كے روزے نہ ركھو كيونكہ يہ ايام كھانے پينے كے ايام ہيں "

مسند احمد حديث نمبر ( 16081 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7355 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ام ھانئ رضى اللہ تعالى عنہا كے غلام ابو مرہ بيان كرتے ہيں كہ وہ عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ ان كے والد عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گئے تو انہوں نے ان دونوں كے سامنے كھانا ركھا، اور كہنے لگے: تناول كريں، تو انہوں نے كہا ميں روزے سے ہوں.

عمرو رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: كھاؤ، يہ ايام كھانے پينے كے دن ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں ان ايام ميں روزہ نہ ركھنے كا حكم ديا كرتے تھے"

مالك كہتے ہيں اور يہ ايام تشريق ہيں "

مسند احمد حديث نمبر ( 17314 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2418 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح كہا ہے.

امام احمد نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں: منى كے ايام ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے يہ اعلان كرنے كا حكم ديا كہ:

" يہ كھانے پينے كے ايام ہيں، چنانچہ ان ميں روزہ نہيں ہے " يعنى ايام تشريق ميں.

مسند احمد حديث نمبر ( 1459 ) مسند احمد كے محقق نے اسے صحيح لغيرہ قرار ديا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا ہے وہ دونوں كہتے ہيں:

" ايام تشريق كے ہم ميں كسى كے ليے بھى روزہ ركھنے كى رخصت نہيں دى گئى، صرف اسے روزہ ركھنے كى رخصت تھى جو قربانى نہ پاتا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1998 ).

ان اور اس كے علاوہ دوسرى احاديث ميں ايام تشريق كے روزے ركھنے كى ممانعت پائى جاتى ہے.

اسى ليے اكثر علماء كرام كا كہنا ہے كہ ان ايام ميں نفلى روزے ركھنے صحيح نہيں.

اور ان ايام ميں رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء كرنے ميں بعض علماء كرام نے اجازت دى ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ ايام تشريق ميں رمضان كے روزوں كى قضاء كے روزے ركھنے بھى جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اكثر اہل علم كے قول كے مطابق ان ايام ميں نفلى روزے ركھنا حلال نہيں، اور ابن زبير سے بيان كيا جاتا ہے كہ وہ ان ايام كے روزے ركھا كرتے تھے.

اور ابن عمر اور اسود بن يزيد سے بھى ايسا ہى مروى ہے، اور ابو طلحہ كے متعلق بيان كيا جاتا ہے كہ وہ عيد الفطر اور عيد الاضحى كے علاوہ كسى بھى دن كا روزہ ترك نہيں كرتے تھے، ظاہر يہ ہوتا ہے كہ انہيں ان ايام ميں روزہ نہ ركھنے كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ممانعت نہيں پہنچى تھى اور اگر انہيں اس كا علم ہوتا تو وہ اس پر ضرور عمل كرتے.

اور ان ايام ميں فرضى روزے ركھنے كے متعلق دو روايتيں ہيں:

پہلى: روزہ ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ ان ايام ميں روزہ ركھنے كى ممانعت ہے، تو يہ يوم عيد كى مشابہ ہوئے.

دوسرى: فرضى روزہ ركھنا صحيح ہے؛ كيونكہ ابن عمر اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ كہتے ہيں: ہم ميں سے كسى كے ليے بھى ايام تشريق ميں روزہ ركھنے كى رخصت نہ تھى، صرف اسے رخصت تھى جس كے پاس قربانى نہ ہوتى.

يعنى حج تمتع كرنے والا شخص اگر قربانى نہ پائے تو وہ ان ايام كے روزے ركھے، يہ حديث بخارى نے روايت كى ہے، اور ہر فرضى روزہ اس پر قياس كيا جائيگا " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 51 ).

اور حنبلى مذہب ميں معتمد يہى ہے كہ ان ايام ميں رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ميں بھى روزہ ركھنا صحيح نہيں.

ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 342 ).

اور رہا يہ مسئلہ كہ اگر حج تمتع اور حج قران كرنے والے كو قربانى نہ ملنے كى صورت ميں ان ايام كا روزہ ركھنا، تو اس پر عائشہ اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كى مندرجہ بالا حديث دلالت كرتى ہے، اور مالكيہ، حنابلہ كا مسلك يہى ہے، اور شافعيہ كا بھى قديم مسلك يہى ہے.

اور شافعيہ كا جديد مسلك اور احناف كا مسلك يہ ہے كہ ان ايام كے روزے ركھنے جائز نہيں.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 7 / 323 ).

ان اقوال ميں راجح قول پہلا ہے، وہ يہ كہ: حج تمتع ميں قربانى نہ ملنے كى صورت ميں ان ايام كے روزے ركھنے جائز ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ علم ميں ركھيں كہ اصحاب كے ہاں صحيح قول جديد يہ ہے كہ ان ايام ميں بالكل روزے ركھنا صحيح نہيں، نہ تو حج تمتع كرنے والے كے ليے اور نہ ہى كسى اور كے ليے.

اور دليل كے مطابق راجح يہى ہے كہ حج تمتع كرنے والے كے ليے ان ايام ميں روزہ ركھنا صحيح اور جائز ہے؛ كيونكہ حديث ميں اس كى رخصت ملتى ہے جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں، اور وہ اس ميں صريح بھى ہے چنانچہ اسے ترك نہيں كيا جا سكتا " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 486 ).

جواب كا خلاصہ:

ايام تشريق ميں نہ تو نفلى روزے ركھنے صحيح ہيں، اور نہ ہى فرضى ليكن صرف حج تمتع يا قران كرنے والے كو اگر قربانى نہ ملے تو وہ روزے ركھ سكتا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تيرہ ذوالحجہ كو نہ تو نفلى روزہ ركھنا جائز ہے اور نہ ہى فرضى، كيونكہ يہ كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے ايام ہيں، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ايام كا روزہ ركھنے سے منع فرمايا ہے، اور حج تمتع ميں قربانى نہ ملنے والے كے علاوہ كسى اور كو ان ايام كے روزے ركھنے اجازت نہيں دى " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 15 / 381 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عيد الاضحى كے بعد والے تين روز ايام تشريق كہلاتے ہيں، اور انہيں ايام تشريق اس ليے كہا جاتا ہے كہ: لوگ ان ايام ميں گوشت خشك كرنے كے ليے دھوپ ميں ركھتے ہيں، تا كہ اس ميں تعفن پيدا نہ ہو اور بعد ميں اسے استعمال كيا جا سكے، ان تين ايام كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ايام تشريق كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے دن ہيں "

چنانچہ اگر ايسا ہى ہے يعنى اگر ان ايام كو شرعى طور پر كھانے پينے اور اللہ كا ذكر كرنے كے ليے خاص كيا گيا ہے تو پھر يہ روزہ ركھنے كے ايام نہيں ہيں.

اسى ليے ابن عمر اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم كا قول ہے:

" كسى كے ليے بھى ايام تشريق كا روزہ ركھنے كى رخصت نہيں دى گئى صرف اسے رخصت ہے جسے قربانى نہ ملے "

يعنى حج تمتع اور حج قران كرنے والے قربانى نہ ملنے كى صورت ميں تين ايام كے روزے حج ميں اور سات گھر آكر ركھيں گے، چنانچہ حج قران اور حج تمتع كواگر قربانى نہ ملے تو اس كے ليے ان تين ايام كے روزے ركھنے جائز ہيں حتى كہ روزے ركھنے سے قبل موسم حج ختم نہ ہو جائے، اور اس كے علاوہ كسى اور كے ليے ان ايام كے روزے ركھنے جائز نہيں، حتى كہ اگر كسى شخص كے ذمہ مسلسل دو ماہ كے روزے بھى ہوں تو وہ عيد الاضحى اور اس كے بعد ايام تشريق تين يوم كے روزے نہيں ركھےگا، اور پھر ان ايام كے بعد اپنے روزوں ميں تسلسل قائم ركھے" انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 20 ) سوال نمبر ( 419 ).

اوپر كى سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر حج تمتع اور حج قران كرنے والا جسے قربانى نہ ملے ان كے علاوہ جس نے بھى سب ايام تشريق يا پھر اس ميں سے كسى دن كا روزہ ركھا تو اسے اپنے كيے پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، كيونكہ اس نے ايسے كام كا ارتكاب كيا ہے جس سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منع فرمايا ہے.

اور اگر اس نے ان ايام ميں رمضان المبارك كے رہنے والے روزوں كى قضاء ميں روزہ ركھا تو يہ اس كے ليے كفائت نہيں كريگا، بلكہ اسے ان ايام كے علاوہ كسى اور ايام ميں دوبارہ قضاء كرنا ہوگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب