اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا ختم قرآن کی تقریب کی جاسکتی ہے

سوال

ایک لڑکی نے پہلی مرتبہ قرآن کریم تلاوت کے ساتھ ختم کیا اور وہ چاہتی ہے کہ اس مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کرے اور اس میں اپنی سہیلیوں کومدعوکرنے کےلیے کارڈوں میں کیا لکھنا چاہیے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


ایسے ملک جہاں پر دین اسلام اجنبی ہو، اور اخلاقیات سے گرے ہوۓ معاشرے میں کسی مسلمان لڑکی کا اس عمر( 11 سال کی ) میں کتاب اللہ کی مکمل تلاوت کرنا بہت عظیم اور قدر والا کام ہے ، اور پھر جیسا کہ سوال میں اس نے اپنا نام بھی ذکر نہیں کیا جو کہ ان شاءاللہ اخلاص کی علامت ہے ۔

میرے خیال میں اس کام پردوسروں کو ابھارنےاور رغبت دلانے کے لیے تقریب کرلینی چاہیے ، اوراگر یہ دعوت صرف چند سہیلیوں اور رشتہ داروں پر مشتمل ہوجس میں آپ قرآن کریم پڑھنے کا تجربہ ان کے سامنے رکھیں تاکہ انہیں بھی اس کام کے لۓ تیار کریں جس میں ریاء اوردکھلاوا نہ ہو تو بہتر ہے ۔

اور اسی طرح اس تقریب میں کو‏ئ ماں قرآن کی عظمت اور تلاوت کی فضیلت اور قرآن کے ساتھ کیسا ادب ہونا چاہیے بیان کرے ، اور اسی طرح اگر یہ لڑکی اس مناسبت سے خوشی محسوس کرتے ہوۓ اوراللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے کھانا کھلاۓ تو اس میں کو‏ئ حرج والی بات نہيں لیکن اس تقریب میں کو‏ئ غلط کام نہ ہو ۔

مندرجہ بالا بیان سے یہ واضح ہو ا کہ قرآن کریم حفظ یا تلاوت کاختم قرآن کی تقریب میں کھانا وغیرہ تیار کرنے میں دو قسم کے فتنوں کا خدشہ ہے :

ایک تو ریاءودکھلاوا ، اور فخرو غرور ، اور دوسرا یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ تقریب دین کا حصہ ہے ، اور ہر دفعہ قرآن مجید ختم کرنے کے بعد تقریب کرنا مشروع ہے ، تو اس اعتقاد کی وجہ سے یہ بدعت ہوگی ۔

یہ تقریب ان آفات سے اس وقت بچ سکتی اور بدعت نہیں ہوگي جب کہ اس میں اخلاص للہ اور بہت ہی کم رشتہ داروں کو مدعو کیا جاۓ ، اور یہ ضروری ہے کہ بعض اوقات اس تقریب کو چھوڑا بھی جاۓ تا کہ یہ گمان نہ پیدا ہوکہ یہ سنت ہے ۔

اللہ تعالی سے میری دعا ہے کہ وہ آپ کو قوت حفظ اورقول عمل میں اخلاص سے نوازے ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد