الحمد للہ.
جى ہاں آدمى كے ليے بے لباس اور ننگا ہو كر غسل كرنا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ ام المؤمنين ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" انہوں نے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ٹب جس ميں آٹے كے اثرات لگے ہوئے تھے سے غسل كيا "
اور يہ بھى ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ بھى غسل فرمايا، جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں كئى ايك جگہ حديث موجود ہے.
غسل كرتے وقت جسم چھپانے كے وجوب كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى بھى صحيح حديث ثابت نہيں، اگرچہ بعض سلف رحمہ اللہ غسل كرتے وقت پردہ كو ترجيح ديتے ليكن شريعت اسے واجب نہيں كرتى بلكہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ لوگوں كى نظروں سے اوجھل ہو سامنے ننگا نہ ہو.
بعض علماء كرام نے صحيحين كى حديث سے استدلال كيا ہے كہ بے لباس ا ور ننگے ہو كر غسل كرنا جائز ہے، جس ميں موسى عليہ السلام كا بے لباس اور ننگے ہو كر غسل كرنے كا ذكر ملتا ہے.
ديكھيں صحيح بخارى حديث نمبر ( 274 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 339 ).
امام نووى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
خلوت ميں ننگا اور بے لباس ہو كر غسل كرنے كے جواز كا بيان.
اور اسى طرح ايوب عليہ السلام كا بھى ننگے اور بے لباس ہو كر غسل كرنا ثابت ہے، جيسا كہ صحيح بخارى حديث نمبر ( 275 ) ميں بيان ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" پچھلے باب ميں ہم بيان كر چكے ہيں كہ: خلوت ميں ضرورت كے وقت شرمگاہ ننگى كرنا جائز ہے، اور يہ غسل كرنے، اور پيشاب كرنے، اور بيوى سے مباشرت كرنے كى حالت وغيرہ ميں ہے، ان سب حالتوں ميں خلوت كے اندر رہتے ہوئے ننگا ہونا جائز ہے.
ليكن ان سب حالات ميں لوگوں كى موجودگى اور ان كے سامنے بے لباس ہونا حرام ہے.
علماء كرام كا كہنا ہے:
خلوت ميں غسل كرتے وقت چادر وغيرہ باندھنا ننگے ہونے سے افضل ہے، اور غسل وغيرہ ميں ضرورت كى مدت ننگا اور بے لباس ہونا جائز ہے، اور ضرورت سے زيادہ ننگے رہنا حرام ہے، صحيح يہى ہے....
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 4 / 32 ).
واللہ اعلم .