جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

ہسپتالوں میں مرد و زن کے اختلاط کے باوجود طبی تعلیم حاصل کرنے اور شعبہ طب میں کام کرنے کا حکم

سوال

ہم میڈیکل کالج کے طلبا ہیں، ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے ہسپتالوں میں کام کرنے کاکیا حکم ہے جہاں شرعی طور پر حرام خلوت سے بچنے کا امکان ہونے کے باوجود ڈاکٹر کو مرد و زن سب کا یکساں علاج کرنا پڑتا ہے، ہمارے ملک میں سب ہسپتالوں میں یہی نظام رائج ہے، اس لیے کوئی بھی مسلمان ڈاکٹر کسی ایسے ہسپتال میں کام نہیں کر سکتا جہاں صرف مرد حضرات ہی ہوں، کیونکہ ایسے ہسپتال ہمارے ہاں موجود ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کچھ مسلمان ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شعبہ طب کو خیر باد ہی کہہ دیا جائے، لیکن ایسا کرنا مناسب بھی نہیں ہوگا؛ کیونکہ شعبہ طب چھوڑنے سے جتنی خرابیاں پیداہوں گی اور مفاد عامہ کو نقصان ہوگا وہ مخلوط ہسپتالوں میں کام کرنے سے زیادہ ہوگا، اس لیے ہم شدید تناؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس بارے میں کسی کے جواب سے کوئی تشفی نہیں ہوئی ، آپ کے سامنے سوال اس لیے رکھا ہے کہ شاید اللہ تعالی ہمیں آپ کی وجہ سے رہنمائی عطا فرما دے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے ہم آپ  کی اس کوشش کو سراہتے ہیں کہ آپ نے ایسے مسئلے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ اس وقت بالکل عام ہو چکا ہے، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلیے قول و فعل میں رہنمائی اور کامیابی کا سوال کرتے ہیں۔

دوم:

کسی مرد ڈاکٹر کیلیے عورت کا علاج کرنا صرف اسی حالت میں جائز ہے جب کوئی عورت ڈاکٹر میسر نہ ہو چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم ، یہی فیصلہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے ایک قرار داد میں بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:
"اصولی طور پر اگر کوئی خاتون اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر ہو تو پھر وہی خاتون مریض کی تشخیص کرے، اور اگر اسپیشلسٹ ڈاکٹر  میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم لیکن معتمد خاتون جنرل ڈاکٹر  مرض کی تشخیص کرے، اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو مسلمان مرد ڈاکٹر تشخیص کرے، اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر  مریض کی تشخیص کرے، بشرطیکہ عورت کے جسم میں سے صرف اتنی جگہ ہی دیکھے جتنی علاج کیلیے ضرورت ہو اس سے زیادہ مت دیکھے، نیز بقدر استطاعت نظروں کی حفاظت کرے،  نیز مرد ڈاکٹر عورت کا علاج کرے تو عورت کا محرم، یا خاوند یا معتمد خاتون ساتھ ہو تا کہ خلوت کا اندیشہ نہ رہے۔

نیز درج ذیل امور کی سفارش بھی کی جاتی ہے:

محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو علوم طب کے تمام شعبہ جات سے منسلک ہونے کیلیے ترغیب دے، خصوصی امراضِ زچہ و بچہ، اور تولید کے شعبہ میں لازمی آئیں؛ اس لیے کہ خواتین کی تعداد ان طبی شعبوں میں بہت کم ہے، اس طرح سے ہمیں مذکورہ بالا استثنائی صورتیں ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی" انتہی
ماخوذ از: "مجلۃ المجمع" (8/1/49)

ہمیں اس بارے میں جتنے بھی سوالات موصول ہوئے ہیں ہم نے اسی بات پر اعتماد کیا ہے، جیسے کہ سوال نمبر:  (20460) میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔

سوم:

اگر کسی ملک میں مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو کہ وہاں تمام کے تمام ہسپتال ہی مرد و زن سے مخلوط ہیں تو یہ ایک استثنائی لیکن افسوسناک صورت ہے، ایسی صورت میں سابقہ قواعد و ضوابط لاگو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ خواتین  کو لازمی طور پر ہسپتالوں میں ان کے پاس جانا پڑے گا اور مرد ڈاکٹروں سے میڈیکل چیک اپ کروائیں  گی، ایسی صورت میں یہ کہنا کہ نیک سیرت ڈاکٹر ایسے ہسپتالوں میں کام نہ کریں ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برے لوگوں کو وہاں کھلی آزادی دے دی جائے! جنہیں کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کا ڈر اور خوف بالکل بھی نہ ہو، اسی طرح اس موقف کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ انہیں بے روز گار رکھا جائے، یا طبی کالجوں کو دیندار ڈاکٹروں سے خالی کر دیا جائے، چنانچہ یہ بات تو مسلّمہ ہے کہ اس طرح سے بہت زیادہ نقصانات لازم آئیں گے جو کہ مرد کی عورت  کے جسم پر ایسی نگاہ پڑنے سے کہیں سنگین ہونگے جو ضرورت کے وقت جائز بھی ہے۔

اس لیے -واللہ  اعلم-ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ان ہسپتالوں میں کام کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ میں ان حالات کو بدلنے کیلیے سنجیدہ کوشش بھی جاری رکھیں، یعنی خواتین کیلیے مخصوص طبی مراکز اور ہسپتال قائم کیے جائیں، جہاں پر اختلاط نہ ہو، اور ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلائیں کہ کچھ ہسپتالوں کو خواتین کیلیے مختص کرنے کے مثبت نتائج برآمد ہونگے، نیز اس کیلیے ممکنہ حد تک شرعی قواعد و ضوابط کی پابندی کریں، تا کہ خلوت کے مواقع کم سے کم ہوں، مریضہ کی صرف ضروری جگہ پر اپنی نظر پڑنے دیں، بقیہ جگہوں پر بالکل نظر نہ جائے، جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (5693) کے جواب میں بتلا چکے ہیں۔

ہمارے اس جواب کے دو بنیادی نکات ہیں:

1- اہل علم کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ شریعت مفادِ عامہ کے حصول اور اسے پایہ تکمیل پہنچانے کیلیے بھر پور کوشش کرتی ہے، اسی طرح خطرات و نقصانات کو جڑ سے ختم کرتی ہے یا انہیں کم سے کم  کرتی ہے، یعنی کہ شریعت دو خرابیوں سے میں کم تر خرابی کا ارتکاب کرنے کی اجازت اس وقت دیتی ہے جب کم تر خرابی کی وجہ سے بڑی خرابی کو روکا جا سکتا ہو۔

2- دوسرا -جو کہ پہلے کا ہی نتیجہ ہے-نکتہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم نے متوقع نقصانات کو کم سے کم حد تک لانے کیلیے ممنوعہ ملازمتوں پر براجمان ہونے کو جائز قرار دیا ہے ، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے بارے میں فتوی دیا جسے ایک علاقے کا سربراہ بنا کر لوگوں سے حرام ٹیکس وصول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ عدل ہو ظلم نہ ہو، جتنا ہو سکے ٹیکس کٹوتی کم سے کم صرف اس لیے کرتا ہے کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور آیا تو وہ اس سے بھی زیادہ ظلم کریگا، تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتوی دیا کہ ایسے شخص کیلیے علاقے کی سربراہی پر قائم رہنا جائز ہے، بلکہ اگر اُسے اس سے اچھی ذمہ داری نہیں ملتی تو اسے چھوڑنے سے زیادہ افضل یہی ہے کہ وہ اس پر قائم رہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" ایسے منصبوں پر جمے رہنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی اور اس منصب کا حق ادا نہ کرے ۔ اس لیے عدل قائم کرنا اور ظلم ختم کرنا ہر کسی پر اپنی استطاعت کے مطابق فرض کفایہ ہے، چنانچہ شخص اپنی ذمہ داری اور منصب کے لحاظ سے قیامِ عدل اور خاتمۂِ ظلم کیلیےکوشش کرے ۔۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/356- 360)

یہ بات سب کیلیے عیاں ہے کہ ٹیکس وصولی سخت حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ لیکن اگر کوئی نیک مسلمان اس منصب کو سنبھالے تو خرابی قدرے کم پیدا ہوتی ہے، اور ممکنہ حد تک ٹیکس وصولی کم کی جاتی ہے تو مسلمان کیلیے یہ منصب سنبھالنا جائز ہو گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس گفتگو   پر ایسا ہی تبصرہ فرمایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"مفاد عامہ کا خیال رکھنا واجب ہے، مثال کے طور پر اگر نیک لوگ طبی علوم سیکھنا ہی چھوڑ دیں اور یہ کہیں کہ : "ہم نرسوں اور میڈیکل کی دیگر طالبات کے جھرمٹ میں طبی علوم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں" تو ہم انہیں کہیں گے کہ اگر آپ طبی علوم حاصل نہیں کرینگے تو  شعبۂِ طب آپ جیسے نیک لوگوں سے خالی ہو جائے گا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بد نیت لوگ اس میدان میں آئیں گے اور خرابیاں پیدا کرینگے، لیکن آپ کے طبی علوم سیکھنے پر عین ممکن ہے کہ آپ کے ساتھ اور بھی ساتھی مل جائیں اور پھر اللہ تعالی حکمرانوں کے ہدایت دے تو وہ مردوں اور خواتین کیلیے الگ الگ ہسپتال قائم کر دیں" انتہی
"شرح كتاب السياسة الشرعية" ص 149

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہم ڈاکٹر حضرات ریاض میں کام کرتے ہیں، ہماری ڈیوٹیوں  کے دوران مرد و خواتین  مریض کی تشخیص کیلیے آتے ہیں ، بسا اوقات مریضہ  کو سر درد یا پیٹ درد کی شکایت ہوتی ہے ، جس کیلیے مکمل طبی معائنہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے سر درد کا سبب معلوم کیا جائے، اسی طرح پیٹ یا سر وغیرہ کا معائنہ کیا جائے، نیز یہ معائنہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھانے کیلیے بھی ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مریضہ کا پیٹ یا سر چیک نہ کیا گیا تو اس سے بسا اوقات زیادہ نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری سے اچھی طرح ادا نہیں ہوگی، تاہم اپنی پیشہ وارانہ طبی خدمات فراہم کرنے کیلیے مریضہ کو اچھی طرح چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"لازمی طور پر ہسپتال کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیوٹیوں کے دوران مرد و خواتین دونوں ڈاکٹروں کو رکھا جائے تا کہ اگر کوئی مریضہ تشخیص کیلیے آئے تو اسے خاتون ڈاکٹر کی جانب بھیجا جائے، لیکن اگر ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں توجہ نہیں دی جاتی  تو پھر آپ خواتین کا چیک اپ کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ طبی معائنہ کے دوران خلوت اور شہوت  نہ ہو، اسی طرح طبی معائنہ کی ضرورت پڑنے پر ہی معائنہ کیا جائے، لہذا اگر باریک بینی سے طبی معائنہ کو مؤخر کرنا ممکن ہو تو خاتون ڈاکٹر کے آنے تک مؤخر کرنا بہتر ہے، لیکن اگر مؤخر کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ضرورت کے تحت مرد مریضہ کا طبی معائنہ کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"لقاءات الباب المفتوح " (1/206)

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اور سب مسلمانوں کے حالات ساز گار بنائے، اور ہمیں ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے، بیشک وہ سننے والا ، قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب