الحمد للہ.
اول:
يقينا اللہ تعالى كا اپنے بندوں پر سب سے عظيم احسان يہ ہے كہ اس نے زمين ميں ہر چيز اس كے ليے مسخر كر ركھى ہے، اور اس پر نعمتيں نازل فرمائى اور ان كے ليے پاكيزہ اشياء كھانے پينے اور پہننے كے ليے مباح كى ہيں.
ليكن اللہ تعالى نے ان اشياء كے استعمال ميں اسراف كرنے يا پھر اس ميں ايسى رخصت تلاش كرنا جس ميں اسے ضرر اور اذيت ہو يا وہ اسے اس كے دين و دنيا ميں زيادہ نفع والى چيز كے آڑے آرہى ہو ميں مشغول ہونے والے كى مذمت بھى كى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كھاؤ پيئو اور اسراف و فضول خرچى مت كرو، كيونكہ اللہ تعالى فضول خرچى اور اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).
دوم:
ابن آدم كے ليے سب سے زيادہ ہلاكت اور تباہ كرنے والى اشياء ميں پيٹ كى شہوت ہے، اور پھر پيٹ شہوات كا منبع اور بيماريوں اور آفات كى جڑ ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى كے ليے سب سے برى چيز اس كا بھرا ہوا پيٹ ہے، ابن آدم كے ليے تو اس كى پيٹھ سيدھى ركھنے كے ليے چند لقمے ہى كافى ہيں، اگر وہ اس كے بغير نہيں رہ سكتا تو ايك تہائى كھانے كے ليے، اور ايك تہائى پينے اور ايك تہائى حصہ سانس لينے كے ليے ركھے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2380 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يعنى ابن آدم صرف اتنا كھائے جو اس كى پيٹھ كو سيدھا ركھے، اور اس سے زيادہ نہ كھائے، ليكن اگر وہ اس سے زيادہ كھانا ہى چاہتا ہے تو پھر اتنا پيٹ بھر كر كھا سكتا ہے كہ پيٹ كے تين حصے كرے ايك حصہ كھانے، اور ايك حصہ پينے اور تيسرا حصہ سانس لينے كے ليے ركھے، اس سے زيادہ مقدار ميں نہ كھائے.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى.
دور جاہليت ميں عقلمند اور دانشور كم كھانے كى تعريف كيا كرتے تھے:
حاتم طائى كا قول ہے:
اگر تو نے پيٹ اور شرمگاہ كو اس كى مطلوبہ اشياء دے ديں تو دونوں خون كى انتہائى مقدار حاصل كر لينگے.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 669 ).
اور اگر انسان اتنا زيادہ كھا لے كہ يہ اس كے ليے ضرر اور نقصان كا باعث بنے تو يہ حرام ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا زيادہ كھانا حرام ہے ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
" جى ہاں مسلمان كے ليے اتنا زيادہ كھانا كہ اس سے ضرر اور نقصان ہو حرام ہے؛ كيونكہ يہ اسراف ميں شامل ہوتا ہے، اور اسراف حرام ہے.
اس كى دليل اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے بنى آدم مسجد ميں حاضر كے وقت لباس پہن ليا كرو، اور كھاؤ پيؤ اور اسراف نہ كرو كيونكہ اللہ تعالى اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الاعراف ( 31 ). انتہى
ديكھيں فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 329 ).
سير ہو كر اور پيٹ بھر كر كھانے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ترہيب وارد ہوئى ہے، يہ اس ليے كہ ايسا كرنا روز قيامت بھوك كا باعث ہو گا.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كى پاس ڈكار ليا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہم سے اپنا ڈكار روك كر ركھو، كيونكہ دنيا ميں اكثر سير رہنے والا شخص روز قيامت سب سے زيادہ مدت بھوكا رہے گا "
جامع ترمذى حديث نمبر ( 2015 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الجشاء: سير ہونے كى صورت ميں انسان سے ہوا كے ساتھ خارج ہونے والى آواز كو كہا جاتا ہے.
ابن ابى الدنيا اور طبرانى نے كبير اور الاوسط ميں اور بيہقى نے ابو جحيفہ سے يہى روايت بيان كى ہے اور اس ميں انہوں نے يہ زيادہ كيا ہے كہ:
ابو جحيفہ نے موت تك پيٹ بھر كر نہيں كھايا، جب وہ دوپہر كا كھانا كھا ليتے تو رات كو نہ كھاتے، اور جب رات كو كھا ليتے تو دوپہر كا كھانا نہ كھاتے.
اور ابن ابى الدنيا كى ايك روايت ميں ہے:
ابو جحيفہ كہتے ہيں: ميں تيس برس سے اپنا پيٹ نہيں بھرا.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى.
زيادہ كھانا ترك كرنے كا طريقہ يہ ہے كہ كھانا بتدريج اور آہستہ آہستہ كم كيا جائے، اس ليے كہ جو شخص زيادہ كھانے كا عادى ہو اور يكبارگى كھانے ميں كمى كرنے پر اس ميں كمزورى اور نقاہت آ جائيگى، اور اس كى مشقت بڑھ جائيگى، اس ليے اسے تھوڑا تھوڑا كھانا كم كرنا چاہيے، وہ اس طرح كہ عادتا كھانے ميں كچھ كمى كرتا رہے حتى كہ كھانے اعتدال حد ميں چلا جائے.
سوم:
اگر نماز باجماعت كى ادائيگى سنت مؤكدہ ہے، يا پھر اول وقت ميں نماز ادا كرنا افضل ہے تو اس كا معنى يہ ہوا كہ ہميں اس كو مضبوطى سے تھامنا چاہيے، اور اس كى مداومت اور حرص كريں، نہ كہ اس كى ادائيگى ميں سستى و كاہلى سے كام ليں، ہميں اللہ تعالى كا شكر بجا لانا اور اس كى تعريف كرنى چاہيے كہ اس نے ہمارے ليے عبادت اور خير كے طريقے، اور سنن ہدى مشروع كى ہيں، اور ہميں اپنوں سے پہلى نسل اور سلف كے حال سے عبرت حاصل كرنى چاہيے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو وہ ان نماز پنجگانہ كى ادائيگى وہاں كرے جس جگہ اس كى اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے تمہارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن ہدى مشروع كى ہيں، اور يہ نمازيں سنن ہدى ميں سے ہيں، اگر تم پيچھے رہ كر اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے والے شضص كى طرح گھروں ميں ہى نماز ادا كرنے لگو تو تم نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ترك كى تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح طہارت كر كے بہترين وضوء كرتا ہے پھر ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد كى طرف جاتا ہے تو اللہ تعالى ہر قدم كے بدلے اس كے ليے ايك نيكى لكھتا ہے، اور ايك درجہ بلند فرماتا ہے، اور اس كى ايك غلطى معاف كرتا ہے، ہم نے ديكھا ہے كہ اس نماز سے پيچھے صرف منافق ہى رہتا ہے جس كا نفاق معلوم ہو، ايك شخص كو دو آدميوں كے درميان پكڑ كر لايا جاتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا تھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).
يہ تو اس صورت ميں ہے جب ہم فرض كريں كہ نماز باجماعت ادا كرنا سنت مؤكدہ ہے، بہت سے سوالات كے جوابات ميں نماز باجماعت كے وجوب كا بيان ہو چكا ہے.
اس كى تفصيل آپ مندرجہ ذيل سوالات ميں ديكھ سكتے ہيں:
( 120 ) اور ( 8918 ) اور ( 10292 ) اور ( 21498 ) اور ( 40113 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ ہميں اور آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جو اس كى محبت اور رضا كے باعث ہوں.
واللہ اعلم .