الحمد للہ.
اول:
نفلى نماز سے فرض كى نيت تبديل كرنا صحيح نہيں؛ كيونكہ فرضى نماز ميں نيت تكبيرہ تحريمہ كے ساتھ يا اس سے كچھ دير قبل ہونى ضرورى ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
الماروردى كا كہنا ہے: نماز سے نماز كى طرف منتقل ہونے كى كئى اقسام ہيں:
پہلى قسم:
فرض سے فرضى نماز كى طرف منتقل ہونا، اس سے كوئى بھى حاصل نہيں ہو گى.
دوسرى قسم:
سنت مؤكدہ سے سنت مؤكدہ ميں منتقل ہونا: مثلا وتر سے فجر كى سنت ميں، تو اس سے بھى كوئى ايك حاصل نہيں ہو گى.
تيسرى قسم:
نفلى كو فرضى ميں بدلنا: اس سے بھى كوئى ايك حاصل نہيں ہو گى.... الخ انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 183 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے نماز شروع كى اور پھر اسے ياد آيا كہ اس نے تو عشاء كى نماز ہى ادا نہيں كى، لہذا اس نے نماز عشاء كى نيت كر لى، تو كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" صحيح نہيں... كيونكہ معين عبادت كى نيت اس عبادت كو شروع كرنے سے قبل كرنى ضرورى ہے، اس ليے كہ اگر اس نے دوران ميں نيت كى تو نيت بدلنے سے قبل والى نماز نئى نيت سے خالى ہونا لازم آتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
سائل كو نماز عشاء لوٹانى چاہيے . انتہى اختصار كے ساتھ.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 12 / 443 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39689 ) كا جواب ضرورى ديكھيں.
دوم:
اور رہا مقتديوں كى نماز كا مسئلہ تو ان شاء اللہ ان كى نماز صحيح ہے كيونكہ امام كى نماز اگرچہ نفلى صحيح نہ تھى مگر نفلى تو ہو گى، اس ليے كہ اس نے جہالت كى بنا پر نيت بدلى، جس ميں اس كا خيال تھا كہ ايسا كرنا جائز ہے، تو يہ اس كے مشابہ ہو گا جو نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل ہى اس گمان سے نماز شروع كر دے كہ وقت ہو چكا ہے، تو يہ اس كى نفلى نماز ہو گى.
سوال نمبر ( 21764 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ نفلى نماز ادا كرنے والے پيچھے فرضى نماز ہو جاتى ہے.
اگر فرض بھى كر ليا جائے كہ اس سے امام كى نماز باطل ہو جاتى ہے تو امام كى نماز باطل ہونے سے مقتديوں كى نماز كا باطل ہونا لازم نہيں آتا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا امام كى نماز باطل ہونے سے مقتديوں كى نماز بھى باطل ہو جاتى ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" امام كى نماز باطل ہونے سے مقتديوں كى نماز باطل نہيں ہوتى، كيونكہ مقتديوں كى نماز صحيح ہے، اور اصل ميں نماز صحيح ہو گى جب تك كہ اس كے باطل ہونے كى كوئى دليل نہ مل جائے.
امام كى نماز تو صحيح دليل كے مقتضى پر باطل ہوئى ليكن مقتدي اللہ كے حكم سے داخل ہوا اور اس كى نماز اللہ كے حكم كے بغير باطل نہيں ہو سكتى، قاعدہ يہ ہے كہ:
" جو شخص عبادت ميں اس طرح داخل ہو جس طرح اسے حكم ديا گيا ہے تو ہم اسے دليل كے بغير باطل نہيں كر سكتے "
جو مقتدى كے قائم مقام ہو وہ اس سے سترہ كى طرح مستثنى ہو گا، كيونكہ امام كا سترہ مقتديوں كے ليے سترہ ہے، اگر امام كے آگے سے كوئى عورت گزر جائے تو امام اور مقتديوں كى نماز باطل ہو جائيگى، كيونكہ يہ سترہ مشترك تھا، اسى ليے ہم مقتدي كو سترہ ركھنے كا حكم نہيں ديتے، بلكہ اگر مقتدى نے بھى سترہ ركھا تو وہ غلو كرنے والا اور بدعتى شمار ہو گا"انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين ( 12 / 450 ).
واللہ اعلم .