الحمد للہ.
{ بهيمة الأنعام } میں صرف اونٹ، گائے اور بکریاں آتی ہیں، ان کے علاوہ دیگر کسی بھی جانور پر زکاۃ نہیں ہے، البتہ اگر ان جانوروں کا تجارتی پیمانے پر کاروبار ہو تو پھر اس میں بطور مالِ تجارت زکاۃ ہو گی۔
1-اونٹوں کا نصاب: اہل علم کے اجماع کے مطابق پانچ اونٹ زکاۃ کا نصاب ہیں، اور ان میں بطور زکاۃ ایک بکری ادا کرنا ہو گی، پھر 10 اونٹوں میں دو بکریاں، 15 اونٹوں میں 3 بکریاں، 20 اونٹوں میں 4 بکریاں، اور 25 اونٹوں میں ایک بنت مخاض [ایک سالہ اونٹنی] ہے، مزید تفصیل آئندہ ذکر کی جانے والی حدیث میں موجود ہے۔
چنانچہ اگر کسی کے پاس 4 یا اس سے کم اونٹ ہوں تو اس پر زکاۃ فرض نہیں ہے، الا کہ مالک خود سے دینا چاہیے تو دے سکتا ہے۔
اس حوالے سے بنیادی دلیل صحیح بخاری: (1454) کی روایت ہے جسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک تحریر بحرین میں گورنر بنا کر بھیجتے ہوئے لکھ کر دی تھی جس میں تھا کہ: " شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ زکاۃ کا وہ نصاب ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو زکاۃ وصول کنندہ مسلمانوں سے اس تحریر کے مطابق زکاۃ طلب کرے تو مسلمان اسے دے دے، اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ 24 یا اس سے کم اونٹوں میں ہر 5 اونٹ پر ایک بکری دینی ہو گی۔ لیکن جب اونٹوں کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو 25 سے 35 تک ایک 1سالہ اونٹنی واجب ہو گی ۔ جب اونٹ کی تعداد 36 تک پہنچ جائے ( تو 36سے ) 45 اونٹوں تک 2برس کی 1 مادہ اونٹنی واجب ہو گی۔ جب تعداد 46 اونٹ تک پہنچ جائے ( تو 46 سے ) 60 اونٹ تک میں 3 برس کی ایک مادہ اونٹنی واجب ہو گی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد 61 اونٹ تک پہنچ جائے ( تو 61 اونٹ سے ) 75 اونٹ تک چار برس کی مادہ واجب ہو گی۔ جب تعداد 76 اونٹ تک پہنچ جائے ( تو 76 اونٹ سے ) 90 اونٹ تک 2، 2 برس کی 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد 91 تک پہنچ جائے تو ( 91سے ) ایک 120 اونٹ تک 3، 3 برس کی جفتی کے قابل 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی ۔ پھر ایک 120 سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر 40 پر دو برس کی اونٹنی واجب ہو گی اور ہر 50 پر ایک تین برس کی جفتی کے قابل اونٹنی واجب ہو گی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکاۃ واجب نہ ہو گی، الا کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے ۔ چنانچہ جب 5 اونٹ ہو جائیں تو تب 1 بکری واجب ہو گی۔"
2- گائے کا نصاب جمہور اہل علم کے مطابق 30 گائے یا بیل ہیں ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہر 30 گائے بیل میں ایک تبیعہ ہے، اور ہر 40 گائے بیل میں ایک مسنہ ہے) اس حدیث کو امام ترمذی: (622) اور ابن ماجہ: (1804) نے روایت کیا ہے، اور اسے البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
تبیعہ: اس بچھڑے کو کہتے ہیں جس کی ایک سال عمر پوری ہو جائے اور دوسرے سال میں داخل ہو، اسے تبیعہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔
مسنہ: ایسے بچھڑے کو کہتے ہیں جس کی دو سال عمر پوری ہو چکی ہو، یہی دوندہ بھی کہلا تا ہے۔
3- بکریوں کا نصاب: 40 بکریاں ہیں، اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے، اور اس کی زکاۃ ایک بکری ہے، جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کے بقیہ حصے میں ہے کہ: " اور ان بکریوں کی زکاۃ جو چرائی پر ہیں اگر ان کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہو تو ( 40سے ) 120 تک ایک بکری واجب ہو گی اور جب 120 سے تعداد بڑھ جائے ( تو 120سے ) سے 200 تک دو بکریاں واجب ہوں گی۔ اگر 200 سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو 200سے ) 300 تک 3 بکریاں واجب ہوں گی اور جب 300 سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر 100 پر 1بکری واجب ہو گی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی، البتہ مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔"
جمہور فقہائے کرام اونٹ ، گائے اور بکریوں میں زکاۃ واجب ہونے کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ یہ جانور سال کا اکثر حصہ چرائی کرتے ہوں، لیکن اگر ان جانوروں کو چارہ ڈالا جاتا ہے تو پھر ان میں زکاۃ نہیں ہو گی الا کہ یہ تجارت کے لیے ہوں، چرائی کی شرط کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا میں چرائی کا ذکر ہے یعنی : (ان بکریوں کی زکاۃ جو چرائی پر ہیں۔۔۔)
مزید کے لیے دیکھیں المغنی: (2/230-243)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/202)میں ہے:
"علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر چرائی کرنے والے اونٹ، گائے اور بکریاں نصاب کو پہنچتی ہیں تو ان پر زکاۃ ہے، جن میں اونٹوں کی زکاۃ کا آغاز 5 اونٹوں سے، گائے کی زکاۃ کا آغاز 30 گائے سے اور بکریوں کی زکاۃ کا آغاز 40 بکریوں سے ہے، چرائی کرنے والے جانوروں سے مراد وہ جانور ہیں جو چل پھر کر گھاس پھوس وغیرہ کھاتے ہیں، اس میں وہ جانور شامل نہیں جنہیں چارا ڈالا جاتا ہے، یا جن جانوروں کو مال برداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اہل علم کا ایسے جانوروں کی زکاۃ کے بارے میں اختلاف ہے جنہیں چارا ڈالا جاتا ہے یا جنہیں مال برداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ان پر زکاۃ نہیں ہے؛ کیونکہ مسند احمد، نسائی، اور ابو داود میں سیدنا بہز بن حکیم سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (چرنے والے ہر چالیس اونٹوں میں ایک دو سالہ اونٹنی ہے۔۔۔)" الحدیث۔ تو اس حدیث مبارکہ میں اونٹوں کی زکاۃ کے لیے یہ قید نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لگائی کہ صرف چرنے والے اونٹوں میں زکاۃ ہو گی لہذا ایسے اونٹوں میں زکاۃ واجب نہیں ہو گی جن کو چارا ڈالا جاتا ہے، جبکہ مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (مال برداری کے جانوروں میں زکاۃ نہیں ہے۔) جبکہ امام مالک، اور اہل علم کی ایک جماعت ان دونوں قسم کے جانوروں پر بھی زکاۃ واجب ہونے کی قائل ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (49041 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم