سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مرد و عورت كى آپس ميں خط و كتابت اور روزے پر اس كا اثر

سوال

رمضان المبارك ميں گرل فرينڈ كے ساتھ انٹرنٹ كے ذريعہ پيغام رسانى كا حكم كيا ہے، جبكہ اس نے كيمرہ بھى آن كر ركھا ہو اور ميں اسے ديكھ رہا ہوں، ليكن يہ سب كچھ احترام كى حدود ميں رہتے ہوئے كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نسل و عزت كى حفاظت شريعت اسلاميہ كے ضرورى مقاصد ميں شامل ہے؛ اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے زنا حرام كيا، بلكہ زنا تك لے جانے والے سب وسائل مرد كا اجنبى عورت كے ساتھ خلوت كرنا، گناہ كى نظر سے ديكھنا، بغير محرم كے عورت كا سفر كرنا، عورت كا گھر سے بناؤ سنگھار كر كے اور خوشبو لگا بے پرد باہر نكلنے كو بھى حرام قرار ديا.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ مرد چورى چھپے عورت سے بات چيت كرے، اور عورت اس كے ساتھ لہك لہك كر باتيں كرے، تا كہ اسے برانگيخت كرے، اور اسے دھوكہ ميں لا كر اس كى شہوت بھڑكائےاور وہ اس كى چالوں ميں آ جائے، چاہے يہ راستے ميں ملاقات كے وقت ہو، يا پھر ٹيلفون پر بات چيت كرے، يا خط و كتابت وغيرہ كے ذريعہ تعلقات قائم كرنا.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات ـ حالانكہ وہ پاكباز بيبياں ہيں ـ كے ليے بھى دور جاہليت كا بناؤ سنگار كر كے باہر نكلنا، اور نرمى سے بات كرنا حرام قرار ديا ہے، كہ كہيں دل ميں كھوٹ والا شخص طمع كا شكار نہ ہو جائے، اور اللہ تعالى نے انہيں حكم ديتے ہوئے فرمايا كہ وہ اچھى بات كريں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويو تم كوئى عام عورتيں نہيں، اگر تم اللہ سے ڈرنے والى ہو تو نرم گفتگو نہ كرو، كہ جس كے دل ميں ( گناہ ) بيمارى ہو تو وہ لالچ كرنے لگے، اور سيدھى سادھى بات كرو الاحزاب ( 32 ).

انٹرنيٹ كے ذريعہ مرد و عورت كا آپس ميں بات چيت كرنا بالاولى فتنہ اور شر ہے، كيونكہ اس بات چيت كے نتيجہ ميں كلام ميں تساہل پيدا ہوتا ہے جو غالبا فتنہ اور اعجاب كا باعث بنتى ہے، اس ليے اللہ تعالى كى خوشنودى اور اس كى سزا سے بچنے كے ليے اس سے بچنا اور دور رہنا ضرورى ہے.

اس طرح كى كلام كرنے والے كتنى ہى مصيبت اور شر كا شكار ہوئے حتى كہ وہ عشق جنون ميں مبتلا ہوگئے، اور اس كام نے انہيں اس سے بھى بڑے كام ميں دھكيل ديا، آپ اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 34841 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

نوجوان لڑكے لڑكيوں كا آپس ميں خط و كتابت كرنے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ خط و كتاب عشق و محبت اور فسقيہ كلام سے خالى ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" كسى بھى انسان كے ليے اجنبى عورت سے خط و كتابت كرنا جائز نہيں كيونكہ ايسا كرنے ميں فتنہ و فساد ہے، ہو سكتا ہے كہ خط و كتابت كرنے والا يہ سمجھے كہ ايسا كرنے ميں كوئى فتنہ و فساد اور خرابى پيدا نہيں ہوتى ليكن شيطان ہر وقت اسے دھوكہ و فريب ميں لگائے ركھےگا، اور اس عورت كو بھى فريب دےگا حتى كہ وہ دونوں ہى فتنہ و شر ميں مبتلا ہو جائينگے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ جو شخص بھى دجال كے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے، اور يہ بھى بتايا كہ آدمى دجال كے پاس آئيگا تو وہ مؤمن ہوگا، يعنى ايمان كى حالت ميں آئيگا، ليكن دجال اسے فتنہ ميں ڈالے بغير نہيں چھوڑےگا.

چنانچہ نوجوان لڑكے اور لڑكيوں كى خط و كتابت ميں بہت عظيم فتنہ اور بہت خطرہ ہے، اس ليے اس سے اجتناب كرنا اور دور رہنا ضرورى ہے، چاہے سائل كا قول يہ ہے كہ:

اس ميں عشق و محبت اور جنون كى باتيں نہيں ہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى المراۃ جمع محمد المسند صفحہ نمبر ( 96 ).

دوم:

روزے دار كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنے، اور جو اسے حكم ديا گيا ہے اس پر عمل كرنے، اور جس نے اللہ تعالى نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كرنے كا حكم ہے.

روزے كا مطلب كھانے پينے سے ركنا نہيں، بلكہ روزے كا مقصد تو اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى پيدا ہونا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تا كہ تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو.

اور نفس كى تربيت اور ہر قسم كے برے اعمال اور گندے اخلاق سے اجتناب ہے، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" كھانے پينے سے ركنے كا نام روزہ نہيں، بلكہ لغو اور بے ہودہ اور گندے اعمال سے اجتناب روزہ ہے "

رواہ الحاكم علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع ( 5376 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور سوال نمبر ( 50063 ) كے جواب ميں معاصى اور گناہوں كا روزے پر اثرانداز ہونا بيان ہوا ہے، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ بعض اوقات تو روزے كا ثواب بالكل ہى ختم ہو جاتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب