الحمد للہ.
جمہور فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ جس نے بھى بلوغت كے بعد كچھ مدت نمازيں ترك كى ہوں اس كے ذمہ ترك كردہ نمازوں كى قضاء لازم ہے، اور اگر اسے نمازوں كى تعداد كا علم نہ ہو تو وہ ظن غالب كے مطابق نمازوں كى قضاء كرے.
يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس نے جو نمازيں بلوغت سے قبل ترك كى تھى اس كے ذمہ ان كى قضاء نہيں، كيونكہ اس وقت تو وہ مكلف ہى نہ تھى.
اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: جس نے عمدا نمازيں ادا نہ كى ہوں اس كے ذمہ قضاء نہيں، بلكہ اس كے ذمہ اس سے توبہ كرنا اور مستقبل ميں بہتر عمل كرنے كا عہد كرنا لازم ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 7969 ) اور ( 72216 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
بہر حال آپ كى والدہ كى حق ميں مشروع يہ ہے كہ وہ كثرت سے توبہ و استغفار كريں، اور نوافل ادا كرتى رہيں، تا كہ يہ اميد كى جا سكے كہ اللہ تعالى ان كى توبہ قبول كرلے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور يقينا بلا شبہ ميں اسے بخش دينے والا ہوں جو توبہ كرتا ہے، اور ايمان لے آتا ہے، اور اعمال صالحہ كر كے ہدايت اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).
اور آپ كى والدہ كا يہ كہنا كہ: ميں نے اپنے رب سے عہد كيا تھا كہ جب تك زندہ رہونگى فوت شدہ نمازوں كى قضاء كرتى رہونگى:
يہ اس بات كى نذر ہے كہ وہ فوت شدہ نمازوں كى قضاء كرينگى، اور وہ يہ كام كر چكى ہيں، اور انہوں نے اپنى نذر پورى كر لى ہے، اس ليے ان كے ليے نمازوں كى قضاء مسلسل كرنى لازم نہيں، كيونكہ وہ بالفعل مكمل كر چكى ہيں كيونكہ نماز كى قضاء صرف ايك بار ہوتى ہے.
اور ان كا يہ كہنا: جب تك زندہ رہونگى: ظاہر يہ ہوتا ہے كہ اس عبارت كا معنى يہ ہے كہ جب تك وہ زندہ رہينگى اپنى نذر پورى كرينگى، اور بيمارى يا كسى اور شغل كى بنا پر نماز ترك نہيں كرينگى.
اور اگر وہ نماز كى ادائيگى جارى ركھنا چاہيں تو يہ بہتر عمل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى رغبت دلاتے ہوئے فرمايا ہے:
" نماز بہترين موضوع ہے، جو بھى كثرت سے ادا كر سكتا ہے وہ كثرت سے ادا كرے "
اسے طبرانى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3870 ) ميں ذكر كيا ہے.
ليكن اس ميں ان كى نيت نفلى نماز كى ہو گى نا كہ فوت شدہ نمازوں كى قضاء كى نيت.
واللہ اعلم .