الحمد للہ.
جن عظیم مقاصد کیلئے شریعت نے شادی کو شرعی حیثیت دی ہے ان میں: عفت، پاکدامنی، حرام کاموں سے نظر کی حفاظت شامل ہیں، پھر ان اہداف کو پانے کیلئے شریعت نے شادی سے پہلے منگیتر کو دیکھنے کی ترغیب بھی دلائی ہے، تا کہ دونوں میں پیار ، محبت، الفت زیادہ سے زیادہ پیدا ہو، جس کے نتیجہ میں محبت، احترام، اور الفت کی چھاؤں میں گھرانہ خوشحال ہوگا، کہ میاں بیوی دونوں کے ذہن میں حرام کام کا تصور بھی نہیں آئے گا، اسی لئے شادی کیلئے خوبصورتی کو معتبر معیاری صفات میں جگہ دی گئی ہے۔
چنانچہ فقہ حنبلی کی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں ہے کہ :
"خوبصورت بیوی حاصل کرنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ خوبصورت بیوی دلی سکون، کامل محبت، اور آنکھوں کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے، اسی لئے نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے"
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا گیا، کونسی خواتین بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (جسے دیکھ کر اسکا خاوند خوش ہوجائے، اور کوئی حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے [بناؤ سنگھارکے]بارے میں خاوند کی مخالفت نہ کرے، اور خاوند کا مال سلیقے سے برتے)
اسے أحمد (2/251) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "السلسلة الصحيحة"(1838) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
کچھ اہل علم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ جب بھی کوئی منگنی کرنے لگے تو سب سے پہلے خوبصورتی کے بارے میں سوال کرے، بعد دینداری کے متعلق پوچھے، کیونکہ لوگوں کے ہاں خوبصورتی کو ہی پہلا درجہ دیا جاتا ہے۔
چنانچہ امام بہوتی "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں کہتے ہیں:
"پہلے دین کے بارے میں مت پوچھے ، کہ کہیں [شادی کیلئے قائل کرنے کیلئے] اسکی خوبصورتی کے تعریفیں کی جائیں، امام احمد کہتے ہیں: جب انسان منگنی کا پیغام بھیجنے لگے تو پہلے خوبصورتی کے بارے میں پوچھ لے، اگر لڑکی کی خوبصورتی کے بارے میں اچھا جواب ملے تو پھر دینداری کے متعلق سوال کرے، اگر مثبت جواب ملے تو شادی کر لے، اور اگر دینداری کے متعلق مثبت جواب نہ ہو تو عدم ِدینداری کی بنا پر وہ چھوڑ دے، لہذا سب سے پہلے دینداری کے بارے میں سوال نہ کرے، کیونکہ اگر پہلے دینداری کے بارے میں سوال کیا تو وہ خوبصورتی کے بارے میں سوال کریگا، اور اگر خوبصورتی کے بارے میں جواب اچھا نہ ہوا تو اب اگر رشتہ چھوڑے گا تو یہ دین کی وجہ سے نہیں بلکہ خوبصورتی کی وجہ سے چھوڑے گا"انتہی
شریعت کی نظر میں قابل مذمت یہ بات ہے کہ دین اور اخلاقیات -جو کہ خوشحالی و کامرانی کی بنیاد ہیں-کو بھول کرانسان صرف خوبصورتی کے پیچھے ہی پڑا رہے، چنانچہ معاشرے میں اکثرلوگوں کی حالت ایسی ہی ہونے کی وجہ سے حدیث مبارکہ میں دیندار اور بااخلاق لڑکی سے شادی کی ترغیب دی گئی، تا کہ لوگ ظاہری شکل وصورت کے پیچھے لگ کر حقائق اور اصل بات سے غافل نہ رہ جائیں۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لڑکی سے شادی چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، تم دیندار کو پا لو، کامیاب ہوجاؤ گے)
بخاری (4802) ومسلم (1466)
نووی رحمہ اللہ "شرح مسلم" (10/52) میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی عادات ذکر کیں، کہ وہ ان چار چیزوں کا خوب دھیان کرتےہیں، اور انکے ہاں آخری درجہ دین کو دیا جاتا ہے، چنانچہ اے طالبِ راہنمائی شخص تم دیندار بیوی تلاش کرنا"انتہی
خوبصورتی تلاش کرنا اچھی بات ہے، اب اسکا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ حُسن ِ بیمثال کی تلاش شروع کردی جائے، اور نوجوان کے خیالات میں آنے والی حسین ترین لڑکی کی تلاش میں ساری زندگی ہی ضائع کردے، عام طور پر ایسی لڑکی کسی کو میسر نہیں ہوتی، اور اگر مل بھی جائے تو اسکی دینی اور اخلاقی حالت بہت پتلی ہوتی ہے۔
چنانچہ یہاں پر خوبصورتی سے مراد اتنی خوبصورتی ہے کہ جسکی وجہ سے انسان اپنے آپ کو حرام سے محفوظ رکھ سکے، دیگر خواتین سے اپنی نظروں کو محفوظ رکھے، لہذا خوبصورتی کی مطلوبہ مقدار ہر شخص کے اعتبار سے الگ ہوگی، اور فیصلہ کن رائے شادی کرنے والا ہی دی سکتا ہے۔
چنانچہ سائل محترم کیلئے نصیحت یہی ہے کہ اس وقت تک اس لڑکی سے منگنی نہ کرے جب تک اُسکے لئے ضروری مقدار حسن کی موجودگی پر مطمئن نہ ہوجائے، کہ کہیں ابتدائی طور پر جذباتی فیصلہ کرلے، اور پھر بعد میں جذبات ٹھنڈے ہوں تو کسی نئی چیز کی کھوج لگانے لگے، حقیقت میں یہیں[اِدھر اُدھر جھانکنے] سے ازدواجی زندگی کا کٹھن راستہ شروع ہوجاتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام گفتگو کے بعد [اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ] دینداری کو ہی سب پر مقدم رکھنا چاہئے۔
اللہ کے حکم سے اسی متوازن سوچ اور فکر کی بنیاد پر ہی خوشگوار ازدواجی زندگی قائم رہ سکتی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو کامیاب کرے، اور آپ کیلئے بھلائی لکھ دے۔
مزید کیلئے سوال نمبر (8391) اور (21510)کا مطالعہ بھی کریں۔
واللہ اعلم .