الحمد للہ.
جب كوئى عورت زيور كى مالكہ ہو تو اور اس كے علاوہ اس كے پاس كچھ نہيں تو وہ اس سے غنى اور مالدار نہيں بن جاتى، چاہے يہ زيور سونے يا چاندى كا ہو اور زكاۃ كے نصاب كو بھى پہنچتا ہو، بلكہ يہ فقير اور محتاج ہى رہے گى، اور اس وصف كى بنا پر وہ زكاۃ لينے كى مستحق ہے، شافعيہ اور حنابلہ نے اسى كو بيان كيا اور صراحت كى ہے.
شافعى فقيہ الرملى كا كہنا ہے كہ:
" عورت كا وہ زيور جو اس كے لائق ہے اور عادتا زيبائش كے ليے جس كى وہ محتاج اور ضرورتمند ہوتى ہے وہ اس كے فقر ميں مانع نہيں"
ديكھيں: نھايۃ المحتاج للرملى ( 6 / 150 ).
يعنى وہ فقير ہى رہے گى اور فقر كے وصف كى بنا پر زكاۃ لينے كى مستحق ٹھرے گى.
اور فقہ حنبلى كى كتاب " كشاف القناع" ميں ہے:
( ... يا اس كے پاس استعمال كے ليے زيور ہو جس كى وہ ضرورتمند ہے تو يہ اس كے زكاۃ لينے ميں مانع نہيں )
ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 587 ).
يعنى وہ فقير اور محتاج ہى رہے گى، اور باوجود اس كے كہ اس كى زيبائش كى ضرورت كے ليے اس كے پاس زيور ہے وہ زكاۃ لينے كى مستحق ہے، اور اس طرح اس سے فقر كا وصف زائل نہيں ہوتا.