اتوار 19 شوال 1445 - 28 اپریل 2024
اردو

استنجا کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ پچھلی شرمگاہ سے کوئی چیز خارج ہوئی ہے، تو کیا کرے؟

سوال

پاخانہ کرنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ پچھلی شرمگاہ سے کچھ نکلا ہے، تو کبھی واقعی کوئی چیز ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی، تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں ہر نماز کے لیے دیکھ لیا کروں کہ کہیں وضو تو نہیں ٹوٹا؟ اور فوت شدہ نمازوں کے بارے میں کیا حکم ہو گا، کیا فوت شدہ نماز مجھ پر دہرانا لازم ہے؟ واضح رہے کہ مجھے اپنی فوت شدہ نمازوں کی تعداد کا علم نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کوئی انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو اور پھر استنجا کر کے وضو کر لے، تو اس کا وضو باقی ہے تا آں کہ کوئی ایسی چیز یقینی طور پر رونما ہو جس سے وضو ٹوٹ جائے۔ چنانچہ محض شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا چاہے شک بھی ٹھوس اور غالب گمان حد تک مضبوط ہی کیوں نہ ہو۔

اس بنا پر: محض یہ گمان پیدا ہونا کہ پچھلی شرمگاہ سے کچھ خارج ہوا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، آپ وسوسوں سے اپنے آپ کو بچائیں، لہذا جب آپ نے اچھی طرح استنجا کر لیا اور جگہ اچھی طرح صاف کر لی تو پھر آپ پر لازم نہیں ہے کہ ہر نماز سے پہلے استنجا والی جگہ چیک کریں۔

اور جو نمازیں آپ نے پہلے ادا کی ہیں انہیں دوبارہ لوٹانا آپ پر لازم نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کا وضو قائم تھا، اور یقینی طور پر کوئی بھی ناقض وضو معاملہ آپ کو پیش نہیں آیا تھا۔

اس اصول کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی کہ: ایک آدمی کو خیال آتا ہے کہ نماز میں کچھ ہو گیا ہے [یعنی ہوا وغیرہ خارج ہو گئی ہے]، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک نماز نہ توڑے جب تک آواز یا بد بو نہ آئے۔)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اسلام کے اصولوں میں سے بہت ہی بنیادی اصول کی حامل حدیث ہے، اس میں قواعد الفقہ کا ایک عظیم قاعدہ ذکر کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے باقی رہنے کا حکم لگایا جائے گا جب تک اس کے خلاف یقین نہ ہو جائے۔ لہذا شکوک و شبہات اس حوالے کچھ اثر انداز نہیں ہوں گے۔

انہی مسائل میں سے باب میں ذکر کردہ مسئلہ ہے کہ جس کے تحت حدیث کو ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ جس شخص نے یقینی طور پر وضو کیا، پھر وضو ٹوٹنے کے بارے میں اسے شک ہوا تو اس کے وضو کے قائم ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شک نماز کے دوران پیدا ہوا ہے یا نماز سے باہر۔ یہ ہمارا [شافعی فقہائے کرام کا] موقف ہے اور یہی موقف جمہور سلف و خلف اہل علم کا ہے۔۔۔ نیز ہمارے [شافعی]فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اس مسئلے میں شک وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے متعلق یکساں ہو ، یا کوئی ایک جانب راجح قرار پاتی ہو، یا کسی ایک جانب غالب گمان ہو ،شک کی کسی بھی حالت میں اسے دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
میں جس وقت پیشاب کر کے وضو کرتا ہوں اور نماز ادا کرنے لگتا ہوں تو مجھے میرے آلہ تناسل سے کسی چیز کے نکلنے کا احساس ہوتا ہے، اور اگر میں جسم اور کپڑوں کو چیک کروں تو مجھے نظر آ جاتا ہے کہ پیشاب کے قطرے نکلے ہیں، تو ایسی صورت میں اس کا کیا حل ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"یقیناً اللہ تعالی کی حکمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے بول و براز کو روکنے کے لیے ہمارے جسم میں ایسے پٹھے بنائے ہیں جو انہیں نکلنے سے روکتے ہیں، لیکن بسا اوقات ان پٹھوں کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے جس سے یہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور بول و براز روک نہیں پاتے، چنانچہ پیشاب کے قطرے تسلسل کے ساتھ نکلتے رہتے ہیں اور بسا اوقات وقفے وقفے سے پیشاب کے قطرے نکلتے ہیں، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان بذات خود ان قطروں کے نکلنے کا سبب بنتا ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ پیشاب سے فراغت پانے پر مقعد کے پاس سے پیشاب کی نالی کو دبانا شروع کرتے ہیں اور آلہ تناسل کی سپاری تک دباتے ہیں، اور کچھ لوگ پیشاب کی نالی میں موجود آخری قطرے کو نکالنے تک دباتے ہیں۔ یہ طریقہ کار غلط ہے، اگرچہ بعض فقہائے کرام نے یہ کہا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد آلہ تناسل کھینچے اور دو انگلیوں کے درمیان لا کر پیشاب کی نالی سے پیشاب کے باقیماندہ قطرے نکالے ؛ تو یہ کمزور موقف ہے ۔ بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مطابق تو یہ عمل بدعت ہے انہوں نے اسے واضح لفظوں میں بدعت قرار دیا ہے، یہی موقف سنت کے ظاہر کے مطابق ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا کہیں منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقعد سے لے کر آلہ تناسل کی سپاری تک پیشاب کی نالی کو دبا کر اس میں سے پیشاب کے قطروں کو نکالا ہو، آلہ تناسل کھینچنا اور نچوڑنا کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ یہ عمل کرتے ہیں۔ چاہے وہ فقہائے کرام کے اس موقف کی تقلید کرتے ہوئے کریں یا اسے ذاتی طور پر وہم ہو کہ اگر اس نے آلہ تناسل کو اس طرح سے نہیں جھاڑا تو پیشاب آلہ تناسل میں باقی رہ جائے گا، تو یہ بھی غلط ہے۔

لہذا جب کوئی انسان پیشاب کرے تو آلہ تناسل کی سپاری دھو لے ، جس جگہ پیشاب لگا ہے اسے دھو لے اور بس یہی کافی ہے۔ ذکر کو نچوڑنے اور دبانے اور جھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس جس جگہ پیشاب لگا ہے صرف اسی جگہ کو دھو لے، اس طرح اس کا پیشاب کا استنجا مکمل ہو جائے گا۔

جس شخص کو پیشاب کے قطرے خارج ہوتے ہیں اگر اس نے ہمارا بیان کردہ طریقہ اپنایا ہوتا تو اسے کبھی اس بیماری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اس لیے میری اس بھائی کو نصیحت ہے کہ اس عمل سے اپنے آپ کو دور کر لے، پیشاب سے فراغت کے بعد اپنے آلہ تناسل کو نہ تو کھینچے، اور نہ ہی دبا کر قطرے نکالے، بلکہ اپنے عضو خاص کو اس کی فطری حالت پر ہی رہنے دے، لہذا جب پیشاب کا آخری قطرہ نکل جائے تو سپاری دھو لے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے عضو خاص میں کسی چیز کی حرکت محسوس ہوتی ہے تو اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ فوری جسم اور کپڑے دیکھنے لگ جائے؛ کچھ لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ جب ایسی کوئی حرکت محسوس کرے تو اپنی شلوار وغیرہ چیک کرنے لگتا ہے اور پھر اپنے عضو کو دبا کر چیک کرتا ہے، اب کوئی اپنے عضو کو دبائے گا تو کچھ نہ کچھ تو نکل ہی آئے گا۔ تو ایسے میں آپ کچھ نہ کریں اور اس کی طرف توجہ نہ دیں۔ حتی کہ بعض اہل علم رحمہم اللہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ: اگر ایسی صورت میں پیشاب کے نکلنے کا وسوسہ دل میں آ رہا ہو تو اپنی شلوار پر پانی کے چھینٹے اس لیے مار لے کہ اگر کہیں گیلا پن نظر بھی آیا تو اسے پانی کا چھینٹا ہی سمجھے گا پیشاب نہیں۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ محض تکلف ہے، آپ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیں، نہ ہی آپ ذہن میں اس کے متعلق کچھ سوچیں، یہ بات ذہن سے اللہ کے حکم سے ختم ہو ہی جائے گی۔ اگر آپ کو سپاری پر ٹھنڈک محسوس ہو، یا عضو خاص میں کوئی حرکت محسوس کریں تو آپ فوری اسے چیک نہ کریں اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیں۔" ختم شد
"اللقاء الشهري"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب