الحمد للہ.
زکاۃ واجب ہونے کی شرائط کسی بھی مال میں پائی جائیں تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی، شرائط یہ ہیں کہ نصاب مکمل ہونے کے بعد سال گزر جائے، چاہے یہ رقم رہائشی مکان ، تعلیم، یا کسی اور ضرورت کو پورا کرنے کیلئے جمع کی جا رہی ہو۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے "مجموع الفتاوى" (14/130) میں استفسار کیا گیا کہ:
"میں اپنی ماہانہ تنخواہ سے کچھ رقم بچت کر کے محفوظ کر لیتا ہوں، تو کیا میری اس رقم پر زکاۃ ہوگی؟ واضح رہے کہ میں یہ رقم اپنے رہائشی مکان اور مستقبل قریب ہی میں ہونے والی میری شادی کیلئے جمع کر رہا ہوں، یاد رہے کہ میں اپنی رقم کئی سالوں سے بینک میں جمع کر رہا ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے جہاں میں یہ مال جمع کر سکوں"
تو انہوں نے جواب دیا:
"شادی ، رہائشی مکان، یا کسی اور ضرورت کیلئے جمع کی جانے والی رقم میں زکاۃ اس وقت واجب ہو جاتی ہے جب نصاب مکمل ہونے کے بعد ایک سال گزر جائے، چاہے یہ جمع شدہ مال نقدی، چاندی یا سونا ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ نصاب کو پہنچنے اور مکمل ایک سال گزرنے پر جن دلائل کی رو سے زکاۃ واجب ہوتی ہے ان سے کسی مال کو استثنا حاصل نہیں ہے۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ سودی بینکوں میں رقم رکھنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں گناہ اور زیادتی کے کاموں پر تعاون ہے، اور اگر انتہائی مجبوری کی حالت ہو تو بینکوں میں رقم رکھی جا سکتی ہے لیکن سود کے بغیر" انتہی
اسی طرح "مجموع الفتاوى" (14/126) میں استفسار کیا گیا:
"اگر کوئی انسان شادی کیلئے پیسے جمع کر رہا ہو تو کیا اس پر زکاۃ معاف ہوگی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"شادی کی نیت سے جمع کیے جانے مال سے زکاۃ ساقط نہیں ہوتی، اسی طرح اپنا قرض اتارنے کیلئے ، عمارت خرید کر وقف کرنے کیلئے یا غلام خرید کر آزاد کرنے کیلئے الغرض تمام مال جمع کرنے والے افراد پر زکاۃ واجب ہوگی بشرطیکہ جمع شدہ مال پر سال گزر جائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان مقاصد کو زکاۃ کیلئے مانع قرار نہیں دیا، اور حقیقت یہ ہے کہ زکاۃ سے مال زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا )
ترجمہ: آپ ان کے مال سے زکاۃ وصول کریں، جس سے ان کے مال پاک ہونگے اور ان میں اضافہ بھی ہوگا۔[التوبة:103]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (صدقہ مال کم نہیں کرتا) مسلم: (2588)" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/381) میں ہے کہ:
"مکان کی تعمیر کیلئے جمع شدہ مال پر اگر سال گزر جائے اور اس کی مقدار نصاب کو پہنچتی ہو یا دیگر زکاۃ کے قابل اموال ملانے سے نصاب مکمل ہو جاتا ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی" انتہی
اسی طرح کا فتوی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی دیا ہے، اور ہم نے ان کا یہ فتوی سوال نمبر: (41805) کے جواب میں نقل کیا ہے۔
اسی طرح اہل علم کا راجح موقف یہی ہے کہ مقروض شخص کے مال پر بھی زکاۃ ہوگی، اسی طرح ایسے شخص کے مال پر زکاۃ ہوگی جس پر کسی چیز کی اقساط باقی ہیں، کیونکہ ایسا قرض جس کا ابھی وقت نہیں آیا ، محفوظ شدہ نصاب تک پہنچنے والے مال سے زکاۃ ساقط نہیں کر سکتا؛ کیونکہ زکاۃ عبادت ہے اور ہر ایسے شخص پر واجب ہے جس کے ہاتھ میں مال ہے، اس کی دلیل زکاۃ کی ادائیگی کیلئے حکم کرنے والی آیات و احادیث کا عموم ہے، اور اس سے پہلے تفصیلی طور پر سوال نمبر: (22426) کے جواب میں بیان ہو چکا ہے۔
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد: سائل محترم ! آپ جمع شدہ مال کی زکاۃ ادا کرینگے، تاہم جو رقم آپ نے مکان کی خریداری کیلئے ایڈوانس جمع کروا دی ہے اس پر زکاۃ نہیں ہے کیونکہ وہ مال اب آپ کی ملکیت سے نکل کر مالک مکان کی ملکیت بن چکا ہے۔
واللہ اعلم.