اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عرب اسرائيلى عيسائى عورت سے شادى كرنا

95572

تاریخ اشاعت : 11-01-2010

مشاہدات : 8706

سوال

ايك عرب اسرائيلى عورت سے ميرا تعارف ہوا ہے اور وہ ميرے ساتھ شادى كرنا اور اسلام قبول كرنا چاہتى ہے، اور اپنا ملك چھوڑ كر ميرے ملك ميں ميرے ساتھ رہ كر اپنے معاشرے سے بالكل دور رہ كر مسلمان ہونا چاہتى ہے.

ليكن جيسا كہ آپ كو معلوم كے اس ميں رشتہ دار و اقرباء اور اجنبيت جيسى بہت سارى مشكلات ہيں، اور مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ كيا كيا جائے، برائے مہربانى ميرى مدد فرمائيں اور كوئى نصيحت كريں.

كيا ان مشكلات كو سامنے ركھتے ہوئے اسے چھوڑ دوں يا كہ اس كے ساتھ شادى كرلوں ـ يہ علم ميں رہے كہ ميں چاہتا ہوں كہ وہ مسلمان ہو جائے اور اپنے معاشرے سے دور رہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ ايك اجنبى اور غير محرم عورت كے ساتھ اس طرح تعارف كر كے آپ نے غلطى كى ہے، ايك اجنبى مرد و عورت كے مابين تعلقات كے معاملہ ميں دين اسلام نے كچھ اہم قواعد و ضوابط وضع كر ركھے ہيں؛ تا كہ مسلمان مرد و عورت اللہ كے حرام كردہ ميں نہ پڑ يں اور اس سے ان كى حفاظت ہو، اور معاشروں ميں فحاشى و برائى كے پھيلاؤ سے اسى ميں حفاظت پائى جاتى ہے، بلكہ ايسا عمل تو كافر عورتوں كے ساتھ بھى حرام ہے، ہو سكتا ہے شيطان اس عمل كو دعوت الى اللہ كے بہانہ سے آپ كے ذہن ميں خوبصورت بنا كر پيش كرے.

اجنبى مرد و عورت كے مابين بات چيت اور خط و كتاب كا حكم ہم سوال نمبر ( 22101 ) اور ( 26890 ) اور (10221 ) اور (23349 ) كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں، آپ ان جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

كافر عورتوں سے شادى كرنے كا حكم:

يہ حرام ہے، الا يہ كہ وہ عورت اہل كتاب ـ يہودى يا نصرانى ـ ہو، مسلمان كے ذہن ميں يہ ہو سكتا ہے كہ جو عورت بھى يورپ اور امريكہ ميں رہتى ہے وہ نصرانى ہو سكتى ہے، يا پھر جو بھى يہوديوں كے ساتھ رہتى ہے وہ يہودى ہوگى، يہ سوچ غلط ہے، كيونكہ جس طرح ايك شخص اسلام كى طرف منسوب ہو كر المانى يا كيمونسٹ ہو سكتا ہے تو اسى طرح ان كے ہاں بھى ہے ـ بلكہ يہ كثرت سے ہوتا ہے كہ ـ ايسے لوگ ہيں جو اپنے ملك كے دين كى طرف منسوب ہوتے ہيں ليكن حقيقت ميں وہ ايسے نہيں بلكہ كسى اور دين كى طرف منسوب ہوتے ہيں، اس ليے جو كوئى بھى كسى غير مسلم عورت كے ساتھ شادى كرنا چاہتا ہے تو اس كے ليے اس عورت ميں درج ذيل شروط كو ديكھنا چاہيے:

1 ـ وہ اہل كتاب ميں سے ہو ـ يعنى يہودى يا نصرانى ـ چاہے وہ اپنے تحريف شدہ دين پر ہى عمل كرتى ہو؛ كيونكہ يہ لوگ ہيں جن كى عورتوں كے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى نے شادى كرنا مباح كى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور ان لوگوں كا كھانا جنہيں كتاب دى گئى ہے تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور مومنوں ميں سے پاكدامن عورتيں، اور پاكدامن عورتيں ان لوگوں كى جنہيں تم سے قبل كتاب دى گئى ہے، جب تم انہيں ان كے مہر ادا كر دو اور عفت و عصمت اختيار كرنے والے ہو فحاشى كرنے والے نہيں، اور نہ پوشيدہ دوستى لگانے والے …. المآئدۃ ( 5 ).

ليكن ملحد اور بدھ مت اور مجوسيت اور ہندومت اور سكھ مذہب سے تعلق ركھنے والى عورت سے شادى كرنا جائز نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم مشرك عورتوں سے اس وقت تك شادى مت كرو حتى كہ وہ ايمان لے آئيں، اور مومن لونڈى مشرك عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمہيں پسند ہو البقرۃ ( 221 ).

2 ـ وہ عورت پاكدامن يعنى عفت و عصمت كى مالك ہو، زنا كرنے والى اور دوستياں لگانے والى نہ ہو؛ كيونكہ سورۃ المآئدۃ كى مندرجہ بالا آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

والحصنات: يہ عفت و عصمت والى عورتوں كو كہا جاتا ہے.

3 ـ نگرانى اور ولايت مسلمان كو حاصل ہو، اس ليے اس كى شادى كنيسہ اور چرچ ميں ہونے كى شرط نہيں ركھى جائيگى، اور نہ ہى اولاد كافر عورت كے تابع ہو گى، اور نہ ہى كوئى ايسا دوسرا كام جس ميں اس عورت اور اس كے دين كو اس كے دين كے حساب سے عزت حاصل ہوتى ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے كافروں كے ليے مومنوں پر كوئى غلبہ نہيں بنايا النساء ( 141 ).

يورپى ممالك كى عورت سے جو كوئى بھى شادى كريگا تو يہ تيسرى شرط اس ميں معدوم ہوگى؛ كيونكہ وہ يورپى قوانين كے تابع ہے ان كى عدالتوں سے ہى فيصلہ كروائيگا، اور وہ اپنى حكومتوں ميں اس كى اولاد كے ليے سب كچھ اپنے دين كے مطابق ہى فيصلہ كريں گے، اور جب وہ شخص بيوى كى رغبت كے بغير اپنى اولاد كو مسلمان ملك منتقل كرنا چاہےگا تو يورپى حكومتيں اور ان كے سفارت خانے عورتوں كا ساتھ ديں گے.

اہل كتاب كى عورتوں كے ساتھ نكاح كے جواز كے قول كے باوجود شريعت مطہرہ نے دين والى مسلمان عورت سے شادى كرنے كى رغبت دلائى ہے؛ كيونكہ مسلمان شخص كى اپنى بيوى كے ساتھ زندگى ايك مكمل زندگى ہے، جس ميں عفت و عصمت اور نظريں نيچى ہونا، اور گھر اور اولاد كى حفاظت اور ان كا خيال اور ديكھ بھال كرنا پايا جاتا ہے، اور يہ اشياء تو صرف ايك مسلمان عورت سے ہى حاصل ہو سكتى ہيں كسى اور سے نہيں.

مزيد اہميت كے پيش نظر آپ سوال نمبر ( 20227 ) اور (45645 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں غير مسلم عورت كے ساتھ شادى كرنے كى خرابياں بڑى وضاحت كے ساتھ بيان كى گئى ہيں.

سوم:

ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں آپ اس عورت كا رابطہ اپنى رشتہ دار مسلمان عورتوں يا دوسرى عورتيں جو دعوت دين كا كام كرتى ہيں سے كرائيں تا كہ وہ اسے اسلام قبول كرنے كى ترغيب دلائيں، اور اسے قبول كرنے پر راضى كريں؛ كيونكہ خدشہ ہے كہ كہيں وہ آپ سے تعلق اور محبت كى بنا پر اسلام قبول نہ كرے، اور بعد ميں مشكلات پيدا ہوں.

اس بنا پر ہو سكتا ہے وہ ظاہرى طور پر اسلام قبول كر لے اور حقيقت ميں كچھ اور ہو، اسى طرح اگر وہ اپنے كفر پر باقى رہتى ہے تو آپ اس سے اس وقت تك شادى نہيں كر سكتے جب تك اس كا كافر ولى راضى نہ ہو اور اجازت نہ دے، اس كا كافر ولى اسلام كى وجہ سے شادى نہ كرے تو ـ بعض اہل علم كے قول كے مطابق ـ اس كى ولايت مسلمان حكمران كو منتقل ہو جائيگى، يا پھر اگر اس كے خاندان ميں ولى بننے والا شخص نہ ہو جو اس كے دين پر ہو تو بھى مسلمان حكمران كو منتقل ہو جائيگى.

ليكن جب وہ عورت مسلمان ہو اور اس كے اولياء ميں كوئى شخص مسلمان نہ ہو تو شرعى قاضى اور جج يا اس كا قائم مقام اس كا ولى بن جائيگا؛ كيونكہ كافر شخص كو مسلمان پر ولايت حاصل نہيں ہوتى.

چنانچہ جب وہ مسلمان ہو جائے تو ہمارى رائے يہى ہے كہ اس سے شادى كر كے اس كو اس كے ماحول سے نكال ليا جائے، اور اسے اپنے ساتھ اپنے ميں بسايا جائے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ اس سے قبل اس كو ديكھنے، يا مصافحہ كرنے، اور اس سے خلوت جيسے حرام كام ميں نہ پڑيں، يہاں تك كہ آپ كو اس كے اسلام قبول كرنے كا علم ہو جائے كہ اس نے اپنى رغبت كے ساتھ اسلام قبول كيا ہے، اور وہ اسلام پر اچھے طريقہ سے عمل شروع كر دے تو آپ اس سے كتاب و سنت كے مطابق شادى كر ليں.

مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اہل كتاب كى عورتوں اور ان عورتوں سے جنہوں نے كسى مسلمان خاوند سے محبت ہونے كى بنا پر اسلم قبول كيا شادى كرانے ميں احتياط برتنى چاہيے كيونكہ ہو سكتا ہے اس نے اپنى موجودہ ضرورت كو جلد پورا كرنے كے ليے اسلام قبول كيا ہو، نہ كہ اسلام سے مطئمن ہو.

اور يہ چيز اس كى اولاد اور اس كى اپنى زندگى پر اثرانداز ہو سكتى ہے، ان دونوں قسموں ميں اس كى اولاد اور اس پر خطرہ ہے، اور اگر يہودى عورت يہوديوں كے درميان رہتى ہو تو پھر احتياط اور زيادہ ہو جاتى ہے؛ كيونكہ يہودى بہت مكار اور مسلمانوں كے خلاف چال چلنے ميں كوئى كمى واقع نہيں كرتے، اور اس كے ليے وہ عورتوں كو استعمال كرتے ہيں.

مزيد آپ سوال نمبر (20884 ) اور (33656 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، ان ميں عورت كے ليے اسلام قبو كرنے كى كيفيت بيان كى ہے.

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو سچى توبہ كى توفيق فرمائے، اور اسے ميں داخل كرے، اور ہم سب كو خير و ھلاى پر جمع كرے، اگر وہ اسلام قبول كر لے، اور اسلام وكو اچھے طريقہ سے اپنانے كى توفيق دے؟

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب