الحمد للہ.
یہ بات بہت سے جاہل یا ناقص فہم رکھنے والے لوگ کہتے ہیں، یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن اس صحیح بات کو کہہ کر اِن لوگوں کا ہدف غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات کرنے والا اپنی گناہوں کے لیے دلیل پیش کرنا چاہتا ہے؛ اس لیے کہ یہ شخص صرف یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ انسان کے دل میں موجود ایمان کے ہوتے ہوئے نیکیاں کرنے اور حرام کام ترک کرنے کے کی ضرورت نہیں صرف ایمان ہی کافی ہے۔ یہ بالکل واضح غلط فہمی ہے؛ کیونکہ ایمان صرف دل میں موجود نظریہ کا نام نہیں ہے بلکہ اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف یہ ہے کہ: یہ زبان سے اقرار، دل سے اعتقاد اور اعضا سے عمل کرنے کا نام ہے۔
امام حسن بصری -اللہ ان سے راضی ہو-کہتے ہیں:
"ایمان محض اعمال سے مزین ہونے کا نام نہیں اور نہ ہی محض دل میں تمنا رکھنے کا نام ہے، ایمان تو دل میں پختہ ہو جانے والے اعتقاد کا نام ہے جس کی تصدیق اعمال کرتے ہیں۔"
گناہ کرنا اور نیکیاں چھوڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ دل میں ایمان نہیں ہے، اور اگر ایمان ہے بھی سہی تو ناقص ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبا
ترجمہ: اے ایمان والو! سود مت کھاؤ۔[آل عمران: 130]
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اسی کی جانب قرب کا وسیلہ تلاش کرو، نیز اسی کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ [المائدۃ: 35]
ایسی ہی فرمایا:
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً
ترجمہ: جو اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے عمل صالح کرے۔[المائدۃ: 69]
ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے۔[البقرۃ: 277]
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً
ترجمہ: جو اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے عمل صالح کرے۔[البقرۃ: 62]
[یعنی ان آیات کریمہ میں ایمان کے ساتھ عمل صالح ذکر کیا گیا ہے۔ ] تو جب تک ایمان کے ساتھ عمل صالح اور گناہوں سے دوری نہ ہو تو اس وقت تک ایمان کو کامل ایمان نہیں کہا جاتا، تبھی تو اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالْعَصْرِ* إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ* إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
ترجمہ: قسم ہے عصر کے وقت کی ٭ بلا شبہ انسان یقینی خسارے میں ہے ٭ ما سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔[العصر: 1-3]
ایسے ہی فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ [النساء: 59]
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو جب وہ تمہیں زندگی بخش احکامات کی دعوت دیں۔[الانفال: 24]
مذکورہ آیات کی رو سے پتہ چلا کہ قلبی ایمان کی عدم موجودگی میں ظاہری عمل نا کافی ہو گا؛ کیونکہ یہ تو منافقوں کی خصلت ہے جنہیں آگ کے نچلے گڑھے میں رکھا جائے گا۔
اسی طرح محض قلبی ایمان بھی کافی نہیں ہے کہ زبانی اقرار اور جوارح کا عمل شامل نہ ہو؛ کیونکہ یہ جہمیہ میں سے مرجئہ وغیرہ کا موقف ہے، جو کہ باطل موقف ہے اس لیے قلبی اعتقاد، زبان سے اقرار اور جوارح کا عمل تینوں چیزیں ہونا لازمی ہے۔ گناہوں کا ارتکاب بذات خود دل میں موجود ایمان کے کمزور ہونے یا ناقص ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ نیکی کرنے سے ایمان بڑھتا ہے اور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
"المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان" (1/19)
مذکورہ شخص نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالی تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ، یہ روایت صحیح مسلم: (2564) میں موجود ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے) تو یہاں بالکل واضح ہے کہ محض قلبی اچھائی کافی نہیں بلکہ عملی اور قلبی دونوں کی اچھائی ضروری ہے، شریعت انسان کو انہی دونوں کا حکم دیتی ہے، چنانچہ مسلمان کے لیے نیک اعمال میں کوتاہی اور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے کی گنجائش نہیں ہے، پھر مزید بر آں یہ بھی کہتا پھر کہ: اللہ تعالی دلوں کو دیکھتا ہے! نہیں بلکہ دلوں اور اعمال دونوں کو دیکھتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی دلوں اور اعمال دونوں کا محاسبہ کرے گا۔
واللہ اعلم