الحمد للہ.
بيمارى ان مباح عذر ميں شامل ہوتى ہے جن كى بنا پر روزہ نہ ركھنا جائز ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ميں سے جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).
مريض كے ليے ليے روزہ ركھنے كا حكم مكروہ اور حرام كے مابين گھومتا ہے، اگر بيمارى كى بنا پر روزہ مشقت كا باعث ہو تو روزہ ركھنا مكروہ ہے، اور اگر اسے نقصان اور ضرر دے تو حرام ہو گا.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 50555 ) اور ( 38532 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور بيمارى كى حالت ميں مريض اس وقت تك روزہ نہ چھوڑے جب تك كہ اس بيمارى كا سپشلسٹ ڈاكٹر اور بعض علماء كرام اسے روزہ نہ ركھنے كى ہدايت كريں، اور شرط يہ ہے وہ ڈاكٹر مسلمان ہو.
اور جس شخص نے بھى ڈاكٹر كے كہنے پر روزہ نہ ركھا اس پر كوئى حرج نہيں، اور اگر بيمارى دائمى ہو تو وہ روزہ نہ ركھے، اور اس كے بدلے ميں ہر روز ايك مسكين كو كھانا كھلائے، اور جس كى بيمارى وقتى ہو تو وہ روزہ نہ ركھے، اور تندرست ہونے كے بعد اس كى قضاء كرتے ہوئے روزہ ركھ لے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب تجربہ كار اور ماہر ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ آپ كى بيمارى ان امراض ميں شامل ہے جن سے شفايابى كى اميد نہيں، تو آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ رمضان المبارك كے ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں، اور آپ كے ذمہ روزہ نہيں ہوگا، كھانے مقدار نصف صاع اس علاقے كى غذا ہے مثلا كھجور، يا چاول وغيرہ، اور اگر آپ كسى مسكين كو صبح يا شام كا كھانا كھلا ديں تو يہ كافى ہوگا.
ليكن اگر وہ يہ فيصلہ كريں كہ بيمارى سے شفايابى كى اميد ہے تو آپ كے ذمہ كھانا كھلانا نہيں، بلكہ جب شفاياب ہوں تو روزے ركھنا واجب ہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى تم ميں سے مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .
اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ ہر مريض كو ہر قسم كى بيمارى سے شفايابى نصيب فرمائے، اور جو تكليف اور بيمارى آپ كو پہنچى ہے اسے آپ كے گناہوں كا كفارہ اور باعث پاكيزگى بنائے، اور آپ كو صبر و تحمل عطا فرمائے، يقينا اللہ تعالى بہتر عطا كرنے والا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 15 / 221 ).
سوال تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ مريض عورت كا والد گنہگار نہيں، كيونكہ اس نے اپنى بيٹى كو ڈاكٹروں كى كلام كى وجہ سے ہى روزہ نہيں ركھنے ديا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مجھے گردوں كى بيمارى ہے، اور دو بار ميرا آپريشن بھى ہو چكا ہے، ڈاكٹروں نے مجھے نصيحت كر ركھى ہے كہ ميں دن رات ميں روزانہ ڈھائى ليٹر پانى پيئوں، اسى طرح انہوں نے يہ بھى بتايا ہے كہ مسلسل تين گھنٹے پانى نہ پينا ميرے ليے خطرناك ہے، تو كيا ميں ان كى كلام پر عمل كروں، يا كہ اللہ پر بھروسہ كرتے ہوئے روزہ ركھ لوں، اور وہ يہ بات يقين سے كہتے ہيں كہ ميرے اندر پتھرى توڑنے كى استعداد ہے، يا مجھے كيا كرنا چاہيے، اور اگر ميں روزہ نہ ركھوں تو ميرے ذمہ كيا كفارہ آتا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر تو معاملہ بالكل ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے، اور يہ ڈاكٹر طب ميں ماہر ہيں تو آپ كے ليے روزہ چھوڑنا مشروع ہے؛ تا كہ آپ اپنى صحت كو بحال ركھ سكيں؛ اور اپنے سے ضرر اور نقصان دور ركھ سكيں، پھر اگر آپ كو اس سے شفا حاصل ہو اور بغير كسى تكليف اور حرج كے آپ روزے قضاء ركھنے كى استطاعت ركھيں تو آپ كے ذمہ قضاء كے روزے ركھنا فرض ہونگے.
ليكن اگر آپ كى بيمارى ختم نہ ہوئے، يا مسلسل پانى پيئے بغير پتھرى پيدا ہونے كى استعداد ہو جائے، اور ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ اس سے شفايابى ممكن نہيں، تو اس حالت ميں آپ ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہوگا " انتہى.
الشيخ عبد العزيز بن باز، الشيخ عبد الرزاق عفيقى، الشيخ عبد اللہ بن غديان، الشيخ بن منيع.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 179 - 180 ).
اور جب مريضہ بغير كسى ضرر كے اپنے اندر روزہ ركھنے كى استطاعت محسوس كرے تو اسے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے ليے ماہر ڈاكٹر حضرات سے مشورہ كرنا ضرورى ہے، تا كہ كہيں وہ اپنى ظاہرى حالت سے دھوكہ نہ كھا جائے، اور روزہ ركھنے سے اس كى صحت متاثر نہ ہو.
اور رہا ان ايام كى قضاء كا مسئلہ جن ايام كے اس نے روزے نہيں ركھے ظاہر تو يہى ہوتا ہے اس كى قضاء لازم نہيں آتى، بلكہ اس كے ليے ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا كافى ہے، كيونكہ اس نے ڈاكٹر كے كہنے پر روزہ نہيں ركھا تھا.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ايك دائمى بيمارى شخص والے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس كے بارہ ميں ڈاكٹر حضرات كا كہنا تھا كہ وہ كبھى بھى روزہ نہ ركھے، ليكن اس نے كسى اور ملك كے ڈاكٹر حضرات سے علاج كروايا تو اسے اللہ كے حكم سے شفا مل گئى، اور اس نے پانچ برس كے رمضان ميں روزے نہيں ركھے تھے، اب شفاملنے كے بعد اسے كيا كرنا چاہيے، آيا وہ ان كى قضاء ميں روزے ركھے يا نہيں ؟
تو شيخ ابن باز رحمہ اللہ جواب تھا:
اگر تو اسے روزہ نہ ركھنے كى نصيحت كرنے والے ڈاكٹر مسلمان اور ماہر اور تجربہ كار اور اس بيمارى كو جاننے والے تھے، اور انہوں نے اسے اس بيمارى سے شفاياب نہ ہونے كا كہا تھا، تو اس كے ذمہ ان روزوں كى قضاء نہيں، بلكہ صرف كھانا كھلانا ہى كافى ہے، اور آئندہ وہ روزے ركھے "
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 15 / 355 ).
خلاصہ:
جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ: باپ نے ڈاكٹروں كے كہنے كى بنا پر بيٹى كو روزہ نہيں ركھنے ديا تو اس وجہ سے باپ گنہگار نہيں، بلكہ عورت كو چاہيے كہ اس نے بلوغت كے بعد جتنے روزے نہيں ركھے ان ميں سے ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائے.
اور اگر اب ڈاكٹر حضرات نے اس كى صحت كو ديكھتے ہوئے يہ فيصلہ كيا ہے كہ اب روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس كى صحت كے ليے نقصان دہ نہيں تو اس پر رمضان كے روزے ركھنا فرض ہيں، اور روزہ نہ ركھنے ميں اس كے پاس كوئى عذر نہيں ہے، اور اگر وہ نفلى روزے بھى ركھنا چاہے تو ركھ سكتى ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .